aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ڈرامے کو عصری آگہی، قدیم و جدید کی کشمکش اور قومی زندگی کے گوناگوں مسائل کا وسیلہ اظہار بنانے والے ڈراما نگاروں میں سیدعابدحسین کا نام سر فہرست ہے۔ مغربی طرز پر لکھا گیا سید عابد حسین کا ڈراما "پردہ غفلت" عصری ماحول کا ترجمان ہے۔ مختلف رویوں کے درمیان پائی جانے والی کشمکش کا عکاس ہے۔ اور منفرد کردارنگاری وفنی محاسن کی وجہ سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ ڈرامہ میں ایک مسلم زمیندار کے گھرانے کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس میں سماجی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اس بحران کی جھلک دکھائی گئی ہے جس سے زمیندار طبقہ پہلی جنگ عظیم کے دوران دوچار ہوا۔اس ڈرامے کو اردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔
سید عابد حسین کا شمار بیسویں صدی کے اہم اور ممتاز دانشوروں اور ادیبوں اور رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے ایک درویشانہ انکسار اور سچی لگن کے ساتھ علم و فن کی خدمت کی اور اپنے عہد کی علمی اور فکری روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کا اصل مضمون فلسفہ تھا جس میں انھوں نے بہت امتیاز کے جرمنی میں ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ ان کی گہری دلچسپی تاریخ تہذیب خصوصاَ ہندوستانی تہذیب کی تاریخ سے تھی۔ انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے اور فارسی بھی پڑھی تھی۔ اور جرمن زبان میں ان کی مہارت اہل زبان عالموں کی سی تھی۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا ’’مجھے اردو سے محبت صرف اس لئے نہیں ہے کہ یہ میری مادری زبان ہے بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ میری محبوب ہندوستانی تہذیب کی زبان ہے‘‘۔ ان کا سب سے زیادہ کام ترجمے کےمیدان میں ہے۔ وہ اردو کے چوٹی کے مترجم مانے جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ اردو اور انگریزی کے بلند پایہ مصنف بھی ہیں۔ انھوں نے مزاحیہ مضامین اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ تاریخ گوئی میں ماہر تھے۔ لیکن اس شوق پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کے ساتھ انصاف کیا وہ کسی بھی مشکل سے مشکل موضوع کو پانی کرکے پیش کرنے کا فن جانتے تھے، بہت متوازن انداز میں مناسب الفاظ کےذریعے وضاحت اور قطعیت اور سادگی سے اپنے خیالات پیش کرتے تھے۔ ان کی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے اوراس کے علاوہ سو کے قریب مضامین اور انشائے ہیں۔ ’’ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب کا مسئلہ‘‘( 1946 ) ان کی اہم تصنیف ہے، جسے بعد میں مختصر کرکے’’قومی تہذیب کا مسئلہ‘‘ کے نام سے شائع کیا اورانگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس پرساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ بھی ملا اور کئی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
انھوں نے چوییس کتابوں کے ترجمے انگریزی یا جرمن زبان سے کئے ہیں۔ ان تراجم نے لفظوں اور تراکیب کا ایک وسیع اور رنگارنگ ذخیرہ اردو زبان کو دیا ہے۔ انھوں نے اردو اسٹینڈرڈ ڈکشنری (مرتبہ مولوی عبدالحق ) کی نظر ثانی کا بھی کام کیا جو دراصل نئے سرے سے لکھنا ہی تھا۔ ہفتہ وار ’’نئی روشنی‘‘ اور’’اسلام اور عصر جدید‘‘ رسالے کے بانی اور مدیر تھے۔ سات برس تک آل انڈیا ریڈیو میں اردوکے ساہتیہ صلاح کار رہے۔ ہندوستان کے لینگویج کمیشن میں اردوماہر اور نمائندے کے طور پر شامل تھے۔ جنوری 1957 میں پدم بھوشن کا خطاب اور دہلی سرکار کا سرسوتی سمان ملا۔
عابد صاحب کا وطن ضلع قنوج میں ایک گاؤں داعی پور ہے، کہا جاتا ہے کہ ان کے جد امجد سید حسن بندگی ترمذ سے ہندوستان آئے تھے، انھوں نے داعی پور میں اپنی خانقاہ بنائی اور وہیں بس گئے۔ عابد صاحب 25 جولائی 1896 میں بھوپال میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا اور والد سید حامد حسین ریاست بھوپال کی ملازمت کے سلسلے میں رہتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کچھ زیادہ منظم نہیں رہی چند برس بھوپال کےجہانگیریہ اسکول پڑھا، 1912 میں الہ آباد یونیورسٹی سے اول درجے سے ہائی اسکول پاس کیا۔ انٹر سائنس کے مضامین کے ساتھ پاس کیا۔ سائنس کی طرف طبیعت مائل نہیں تھی، بی اے میں میں فلسفہ، انگریزی اور فارسی مضامین لئے اورسن 0 219میں پوری الہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ فلسفے میں ایم اے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ریاست بھوپال سے وظیفہ تو مل رہا تھا لیکن ملک میں اس وقت سیاسی افراتفری کا دور تھا عدم تعاون تحریک زوروں پر تھی اس لیے پڑھائی نہیں ہو پارہی تھی۔ الہ آباد یونیورسٹی کا بھی وہی حال تھا۔ لہذا انھوں نے لند ن جاکر پڑھنے کی ٹھانی۔ لیکن گھر کے مالی حالات اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، بھوپال میں نواب حمیداللہ خاں سے لندن جاکر پڑھنے کے لئے مالی مدد مانگی جو نہیں مل سکی۔ لیکن عابد صاحب ہار ماننے والے نہیں تھے، لند ن گئے، قرض لے کر کام چلایا اور پھر مالی مشکلات کے پیش نظر جرمنی میں داخلہ لیا جہاں تعلیم اور رہنا سستا تھا۔ ان کے والد نے بھوپال سے وظیفہ بھی بحال کرادیا۔ جرمنی میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب بھی تعلیم کے سلسلے میں موجود تھے تینوں ساتھ رہنےلگے۔ عابد صاحب نے 1925 میں برلن یونیورسٹی سے پروفیسر اشپرنگر کے زیر نگرانی، پی ایچ ڈی مکمل کی۔ مقالےکا عنوان تھا ’’ہربرٹ اسپنسر کا نظریہ تعلیم،اس کے فلسفے کی روشنی میں‘‘۔ اس دوران ویانا میں حکیم اجمل اور ڈاکٹر انصاری سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے ان تینوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کی درخواست کی۔ ان تینوں نے 1926 میں جرمنی سے واپس آکر دہلی میں میں جامعہ ملیہ میں بہت کم تنخواہوں پر قوم وملت کی خدمت کے لئے کام کرنا قبول کرلیا۔ ذاکر صاحب نے شیخ الجامہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہ تینوں جامعہ کے ارکان ثلاثہ کہلاتے ہیں۔ جامعہ میں عابد صاحب اردو اور انگریزی ادب پڑھانے پر مامور تھے۔ چند سال جامعہ کالج کے پرنسپل رہے اور جامعہ کے خازن (ٹریثرار) بھی رہے۔ رسالہ’’جامعہ‘‘ کے مدیر اور بچوں کے رسالے’’پیام تعلیم‘‘ کے بانی اور مدیر تھے۔ بچوں کے لئے اس میں لکھتے بھی تھے۔ انھوں نے جون 1948 میں ہفت روزہ اخبار’’نئی روشنی‘‘ نکالا جو کئی سالوں تک جاری رہا۔ اس میں وہ ایک مزاحیہ کالم خود بھی لکھتے تھے جو بہت مشہور ہوا۔ ان کو جامعہ کے وائس چانسلر کے عہدے کی پیش کش ہوئ جس کو انھوں نے اپنی علمی کاموں کے پیش نظر قبول نہیں کیا، چند سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گذارے اور جنرل ایجوکیشن کا شعبہ قائم کیا۔ 1976 میں ڈاکڑ ذاکر حسین کی سرپرستی میں اسلام اینڈ ماڈرن ایج سوسائٹی قائم کی۔ اور دو سال بعد اس کے تحت ’’اسلام اور عصر جدید‘‘ کے نام سے اردو رسالہ جاری کیا اور پھر اس نام سے انگریزی میں بھی شائع کیا۔ جو 1974 تک جاری رہا۔ اپنی زندگی ہی میں اس سوسائٹی کو بوجوہ ختم کردیا۔
سن 3319 میں ان کی شادی خواجہ غلام السیدین کی بہن، مولانا حالی کی پر نواسی مصداق فاطمہ سے ہوئی جو صالحہ عابد حیسن کے نام سے مشہور ہیں اورناول نگاری اور تحقیق میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ ان کی پہلی شادی زمانہ طالب علمی میں ہی اپنی عم زاد بہن سے ہوگئ تھی جو چل نہیں سکی۔ دونوں شادیوں سے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اپنی ہمشیرہ کی اولاد کی تربیت و تعلیم پر کی پوری ذمہ داری نبھائی۔ 1978 میں سرطان کے مرض میں انتقال ہوا۔ جامعہ ملیہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
ٹصانیف:
قومی تہذیب کا مسئلہ ۔ ‘ پردۂ غفلت’ (ڈرامہ)۔‘مسلمانوں کی تعلیم اور جامعہ ملیہ’ ۔‘ ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب’ (۳جلد)۔ ‘مضامین عابد’۔ ‘شریر لڑکا’ (ڈرامہ)۔‘ بزم بے تکلف’۔ ‘ ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں’۔اور‘۔گاندھی اور نہرو کی راہ ’
Teaching of Mother Tonge in India. Hindi as the National language of Indian
Compulsory Education in India in collaboration with J.P. Naik. National culture of India
Why of Gandhi and Nehru. What is General Education. Indian Culture. Gandhi and communal unity.
Destiny of Indian Muslims.
تراجم
Jawahar lal Nehru: Discovery of India. تلاش ہند (دوجلد) جواہر لال نہرو (انگریزی)
۔ مکالمات افلاطون۔ (جرمن ) Goethe’s foust فاؤسٹ (جلد اول گوئٹے) جرمن)
Goethe’s Wilhelm Meister Vol I-II ولہیم مانٔسٹر (دو جلد) گوئٹے (جرمن)
Rabindernath Tagore: Chaukher Bali کلموہی: رابندرناتھ ٹیگور (انگریزی)
Bernard Shaw . St. Joan سینٹ جون: جارج برناڈشا(انگریزی)
Gandhi M.K. My Experiments with Truth تلاش حق: مہاتما گاندھی کی آپ بیتی، دوجلد (انگریزی)
Jawaherlal Nehru: An autobiography میری کہانی: جواہر لال نہرو (انگریزی)
Gandhi M.K.: Nations Vice, Pyrelal یاد عزیز، قوم کی آواز: پیارے لال (انگریزی)
Gandhi M.K.: Self Control vs self Indulgence ضبط نفس اور نفس پرستی(انگریزی)
M.K. all men are brothers: K.R. Kirpalani سب انسان بھائی بھائی ہیں (انگریزی)
Zakir Husain: Reconstructions of Indian Education ہندوستان میں تعلیم کی ازسرنو تنظیم: ذاکر حسین (انگریزی)
Rabindra Nath Tagore: Our Poet ہمارا شاعر