aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آزادی کے بعد جو افسانہ نگار ابھر کا سامنے آئے ان میں ایک اہم نام غیاث احمد گدی ہے۔غیاث احمد گدی صاحب نےترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت لکھنا شروع کیا۔آگے چل کر وہ جدیدیت سے بھی خاصے متاثر ہوئے۔ان دونوں تحریکات کا اثر ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔زیر نظر کتاب "پرندہ پکڑنے والی گاڑی"ان کے افسانوں کا مجموعہ ہےجس میں 16 افسانے شامل ہیں۔انھوں نے سیدھے سادے پیرائے میں بھی افسانے لکھے ہیں اور علامتی اور استعاراتی انداز میں بھی۔ اس کے باوجود کےان افسانوں میں کہانی پن موجود ہے۔ انھوں نے عام انسانوں کے جذبات و احساسات کو لطیف پیرائیہ میں بیان کیا ہےاور انسانی نفسیات کی عکاسی بڑی چابکدستی سے کی ہے۔زیر نظر مجموعے میں شامل افسانے عصری سماجی مسائل کے عکاس ہیں۔سماجی موضوعات پر لکھے گئے ان کے افسانوں میں "کمیا گر،قیدی،کالے شاہ،دیمک ،افعی اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی قابل ذکر ہیں۔جن میں معاشرہ کی بد حالی ،اخلاقی زوال ،طبقاتی کشمکش ،انسانی اقدار کی بے قدری ،نچلے طبقے کی محرومیت و حق تلفی کوموثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔"پرندہ پکڑنے والی گاڑی"ان کانمائندہ افسانہ ہے۔اس میں حالات کے جبر ،عام لوگوں کی بے ضمیری اور باضمیر افراد کی بے بسی و لاچاری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مجموعے میں شامل دیگر افسانے بھی سماجی و معاشراتی مسائل کی عکاسی کرتے خوب ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free