aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
9زیر نظر کتاب بشیر فاروقیؔ کا شعری مجموعہ ہے۔ بشیر اردو شاعری میں ایک ایسے شاعر ہیں جن پر عموماً توجہ کم ہی دی جاتی ہے لیکن وہ کوئی ایسی آواز نہ تھے کہ انہیں آسانی سے نظر انداز کیا جاتا۔ اس کی مثال ان پر لکھی مشاہیر کی آراء ہیں مثلاً فراق نے ان پر لکھا کہ ان کا کلام سامع کے ذہن میں انسلاک کے تار جھنجھوڑ دیتا ہے۔ مجروح نے کہا کہ ان کی شاعری خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ نگاہ روشن اور قدمِ استوار بھی رکھتی ہے۔ کیفی نے کہا کہ وہ روایت پرستی سے منحرف ہونے کے باوجود اپنی آواز اور لہجے کو بخوبی پہچانتے تھے۔ پروفیسر ولی الحق ولی انصاری نے لکھا کہ وہ اظہار پر بھرپور قدرت رکھتے ہیں۔ ان آراء کو اگر سامنے رکھا جائے تو بشیر کی اصل حیثیت اور قد و قامت ابھر سامنے آتی ہے۔
بشیر الدین احمد فاروقی نام اور بشیر فاروقی قلمی نام ۔20؍مئی1939ء کو لکھنئو میں پیدا ہوئے۔بی۔اے اور ادیب کامل کی اسناد حاصل کیں۔اردو ،فارسی،ہندی ،عربی ،انگریزی اور سنسکرت زبانوں کا علم ہے ۔ان کی شاعری کو فراق گورکھپوری ،مجروح سلطان پوری ،کیفی اعظمی اور عنوان چشتی جیسے ادیبوں نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔شعری مجموعوں پر اترپردیش اردو اکیڈمی سمیت کئی ایوارڈ ملے ہیں۔ ’سناٹے کی آواز،حادثوں کے درمیان،شفق رنگ چاندنی ،تذکرہ مراد اللہ شاہ نقشبندی اور پروں کے درمیان ان کی تصانیف ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets