aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ان کا اصل نام ذکیہ سلطانہ ہے۔ ان کے والد حکیم احمد صدیقی تھے۔ ذکیہ 1944ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئی اور یہیں تعلیم بھی ہوئی۔ نفسیات میں ایم اے کیا اور بی ایڈ کی ڈگری بھی لی۔ حصول تعلیم کے بعد کونوٹ کالج لکھنؤ میں نفسیات کی لکچرر ہوگئیں اور اسی عہدے پر پانچ سال رہیں۔ اس کے بعد استعفیٰ دے کر پٹنہ چلی آئیں یہاں بھی بی ایڈ کالج میں پانچ؍ چھ سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
ذکیہ مشہدی آج کی نامور افسانہ نگار ہیں۔ جدید ترین چند افسانہ نگاروں میں ان کا نام بھی احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اردو، انگریزی اور ہندی پر یکساں قدرت ہے۔ انہوں نے اہم اداروں کے لئے متعدد کتابیں ترجمہ کی ہیں۔ مثلاً فروغ اردو کونسل، دہلی کے لئے انہوں نے تین کتابیں ترجمہ کیں جن کا تعلق نفسیات سے ہے۔ انہوں نے بھوانی بھٹا چاریہ کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے یہ کام ساہتیہ اکادمی دہلی کے لئے انجام دیا۔ نیشنل بک ٹرسٹ کے لئے جیلانی بانو کے اردو افسانے کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ بعض کتابیں ہندی سے اردو میں ترجمہ کیں۔ ایسے اہم کام کے علاوہ ان کی بنیادی شناخت ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ مثلاً ’’پرائے چہرے‘‘، ’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘ اور ’’صدائے بازگشت‘‘۔
محترمہ کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو آسانی سے نمایاں ہوجاتی ہے کہ ان کی دردمندی ہر افسانے کا قوام ہے۔ کسی ازم سے ان کا تعلق نہیں۔ لیکن انسانیت کی شیرینی ان کے رگ و پے میں دوڑتی رہتی ہے۔ لہٰذا زندگی کی آلودگیاں اس کی سنگین ناہمواری استحصال سبھوں کے ساتھ وہ برسرپیکار ہیں لیکن نہ تو ان کے یہاں ترقی پسندوں کا اونچا لہجہ ہے اور نہ ہی جدیدیت کی مبہم کیفیت۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے نشیب و فراز تخلیقی جہات سے گزر کر پرکشش بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے مطالعہ سے جذبے کی تطہیر ہوتی ہے اور وژن میں اضافہ ہوتا ہے۔
بعض دوسری خواتین کی طرح یہ مردوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں لیکن فیلک سوسائٹی کے نظام سے مطمئن بھی نہیں ہیں اس کے خلاف وہ چیختی نہیں ہیں بلکہ زیریں لہروں میں استحصال کا احساس دلاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کا افسانہ ’’بھیڑیے‘‘ ہے۔ دلتوں اور کمزوروں سے ان کی ہمدردی ہے اور سماجی نابرابری کو وہ خطرناک سمجھتی ہیں۔ لہٰذا وہ پٹرنل سوسائٹی سے ہرگز مطمئن نہیں اور اپنی بے اطمینانی کو فن کی صورت میں پیش کرنے کا گر جانتی ہیں۔
ان کے اب تک ستر(70) افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ واقعات کو کردار کے ذریعہ نمایاں کرتی ہیں۔ کسے ہوئے ماجرا میں ان کا نقطۂ نظر واضح ہوجاتا ہے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے زندگی کو سمجھنے اور سمجھانے میں اپنے تخلیقی رویہ کو ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔ اس لئے کردار، ماجرا اور منظر سبھی ایک دوسرے سے متحد ہوجاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر خلاقانہ بصیرت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ذکیہ مشہدی کی زبان سلیس اور رواں ہے۔ پیچیدگی سے انحراف ان کے اسلوب کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس لئے پڑھنے والا کہیں بھی مکدر نہیں ہوتا اور ابتدا سے انتہا تک مصنفہ کے ساتھ شریک رہتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ذکیہ مشہدی اردو کی ایک مایہ ناز افسانہ نگار ہیں جن کے امکانات وسیع ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets