aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"پس الفاظ"احمد ندیم قاسمی کے تنقیدی مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین کو مختلف عناوین کےتحت تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے دو نہایت اہم اور کلیدی خطبے ہیں "خصوصی مطالعہ غالب" کے عنوان سے غالب پر لکھے گئے نو مضامین شامل ہیں ،پھر "خصوصی مطالعہ قرۃ العین حیدر "عنوان سے قرۃ العین حیدر کے ناول "میرے بھی صنم خانے"پر ایک طویل مگر پر معنی بحث کی گئی ہے ، تیسرا عنوان "میرا نظریہ فکر "ہے اس کے تحت احمد ندیم قاسمی نے سترہ مضامین شامل کیے ہیں ، جن میں انھوں نے ادب ، فن اور ادین کے مقصد اور انفرادیت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
احمد ندیم قاسمی اردو کے ان گنتی کے ادیبوں اور شاعروں مین سے ایک ہیں جنھوں نے ایک ساتھ فکشن اور شاعری میں غیر معمولی فنکاری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اردو فکشن کے زرّیں عہد میں افسانہ نگاری کے میدان میں امیاز حاصل کیا۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے دورِ عروج میں کسی دوسرے افسانہ نگار کا چراغ جلنا مشکل تھا لیکن قاسمی نے اس عہد میں بھی اپنی اہمیت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے انسانی فطرت کے پیچ و خم کو اپنے گہرے مشاہدے کی روشنی میں اک جامع شکل دی۔ وہ دیہی زندگی کے بڑے نبض شناس تھے اور انسانی نفسیات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انھوں نے زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کی نفسیاتی گرہیں کھولنے کی بھی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں ہر نوع کے کردار پاے جاتے ہیں۔ عورتوں کی مظلومی پر لکھے گئے ان کے افسانے ان کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اپنے افسانوں میں احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی اور اس کے مسائل کی جس طرح تصویر کشی کی ہے اس کے لئے کچھ ناقدین ان کو اس میدان میں پریم چند کے بعد دوسرا بڑا فنکار مانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی ادیب گر بھی تھے۔ نثر میں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کی اور شاعری میں انھوں نے احمد فراز، امجد اسلام امجد، پروین شاکر اور گلزارکی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی۔ ان کے زمانہ میں ایک وقت ایسا تھا جب پاکسانی ادیب و شاعر دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک احمد ندیم قاسمی کا گروپ تھا اور دوسرا وزیر آغا کا گروپ۔ ہمعصر شعراء میں ن۔ م۔ راشد اور فیض احمد فیض سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ اپنے قریبی دوست پروفیسر فتح محمد ملک کو انھوں نے جو خطوط لکھے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاصر شعراء کے حوالہ سے ان کے اندر خود پسندی اور رعونت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ خود کو فیض سے بہتر شاعر سمجھتے تھےاور ہر موقع پر، شعوری یا غیر شعروری طور پر، فیض کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے، جس میں ان کو کبھی کامیابی نہیں ملی۔ ن۔ م۔ راشد ان کی خود تشہیری کی وجہ سے انھیں نا پسند کرتے تھے۔ اپنے سے جونیر شاعروں اور ادیبوں میں انھیں وزیر آغا، کشور ناہید، افتخارعارف اورانورسدید پسند نہیں تھے، بعد کے دنوں میں پروین شاکر بھی اپنے "عمّو" سے دورہوگئی تھیں۔
احمد ندیم قاسمی پاکستان کے ضلع خوشاب میں 20 نومبر 1916 کو پیدا ہوے۔ تین سال کی عمر میں والد پیر غلام نبی کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے نتیجہ میں بچپن میں ان کو شدید مشکلات اور محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان 1930 میں شیخو پورہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے پاس کیا ۔ اسی زمانہ میں انھوں نے شاعری شروع کردی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست میں شائع ہوئی تھی۔ 1934 سے 1937 تک ان کی غزلیں اورنظمیں روزنامہ انقلاب اور روزنامہ زمیندار میں شائع ہوتی رہیں اور انھوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کر لی۔ 1935 میں انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا اور تلاش معاش میں لاہور چلے گئے۔ یہاں ان کی ملاقات اپنے وقت کے اہم ادیبوں اور شاعروں ، اختر شیرانی، صوفی غلام مصطفی تبسّم، منٹو اور کرشن چندر سے ہوئی۔ 1935 سے انھوں نے کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ "چوپال" 1935 میں شائع ہوا جبکہ پہلا شعری مجموعہ "دھڑکن"1942 میں منظرعام پرآیا۔ 1939 میں انھوں نے محکمۂ آبکاری میں ملازمت کر لی 1940 میں انھوں نے ایک فلم "دھرم پتنی" کے مکالمے اور گانے لکھے لیکن یہ فلم کبھی مکمل نہیں ہوئی۔ 1942 میں انھوں نے آبکاری کے محکمہ کی ملازمت چھوڑ دی اور امتیاز علی تاج کے اشاعتی ادارے میں بچوں کے رسالہ "پھول" اور خواتین کے جریدہ "تہذیب نسواں" کی ادارت سنبھال لی۔ پھر وہ 1943 میں معروف ادبی رسالہ "ادب لطیف" کے مدیر مقرر کر دئے گئے۔ اسی رسالہ میں منٹو کی کہانی "بو" شائع ہوئی تھی جس کے لئے منٹو پر فحش نگاری کا مقدمہ چلا تھا اور قاسمی بھی اس کی لپیٹ میں آئے تھے۔ 1946 میں انھوں نے ادب لطیف کی ادارت چھوڑ کر ریڈیو پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت کر لی، جہاں انھوں نے 1948 تک کام کیاَ پھر وہ ادبی رسالہ "نقوش" کی ادارت کرنے لگے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابسہ تھے اور انھیں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پاکستان شاخ کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں انھوں نے اس تحریک سے دوری اختیار کر لی۔ 1963 میں انھوں نے اپنا رسالہ "فنون" نکالا، اور تا عمر اس کی ادارت کرتے رہے۔ وہ روزنامہ امروز کے لئے فکاہیہ کالم ’’پنج دریا بھی لکھتے تھے اور کچھ دنوں اس اخبار کے مدیر کے فرائض بھی انجام دئے۔ انھوں نے روزنامہ جنگ اور روزنامہ حریت کے لئے بھی کالم لکھے۔ 1950 اور 1970 کے عشروں میں وہ کئی بار گرفتار کئے گئے۔ 1958 میں انھیں سرکاری ادارے مجلس ترقی ادب کا سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ 1968 میں حکومت پاکستان نے انھیں "تمغۂ حسن کارکردگی" سے اور 1980 میں ملک کے سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ " نشان امتیاز" سے نوازا۔ 2006 میں دمہ کے عارضہ میں ان کا انتقال ہوا۔
احمد ندیم قاسمی نے نظم و نثر میں تقریبا 50 کتابیں لکھیں شاعری میں ان کے مجموعے "جلال و جمال"، شعلۂ گل"، اور"کشتِ وفا" اور اور کہانیوں کے مجموعے "چوپال"، "سنّاٹا"، "کپاس کے پھول"، "بگولے"، "آنچل" اور" گھر سے گھر تک" کو خاص مقبولیت ملی۔ 10 جولائی 2009ء کو پاکسان کے محکمۂ ڈاک نے ان کی تیسری برسی کے موقع پر 5 روپے مالیت کا خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
احمد ندیم قاسمی کی ادبی اہمیت کا تذکرہ کرے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے کہ مقصد اور فن کا حسین توازن قاسمی کی پہچان اور ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن وہ اتنے بڑے ترقی پسند نہیں جتنے بڑے فنکار ہیں وہ ادب میں پروپیگنڈہ کی بے اعتدالی سے بچتے رہے۔ ان کے ہاں نظریہ کی آمیزش کے ساتھ رومان کی حسین فضا اور مٹّی سے محبت کے حوالے موجود ہیں۔ ان کے افسانوں میں زمین اور انسان سے ان کی محبت کھُل کر سامنے آتی ہے۔ ان کے ہاں غم ، غصے، نفرت، تنگ نظری اور تشدد کا کوئی شائبہ نہیں وہ ہر کہیں مہر و محبت اور خلوص و وفا کا مجسمہ نظر آتے ہیں اور یہی ان کی بڑائی کی دلیل ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets