aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
صابر ظفر کا شعری مجموعہ " پاتال" ہے۔ جس میں شاعرنے دنیا کو نگاہ عشق و تحیر سے دیکھ کر شعری پیکر میں ڈھالا ہے وہیں مظاہر فطرت کو بھی دلکش پیرائیہ میں پیش کیا ہے۔شاعر نے اپنی بے خودی اور سرشاری کو اپنے محبوب حقیقی سے منسوب کرتے ہیں۔ان کی طویل غزلیں ان کی عمیق شعری ریاضت اور غزل سے شاعر کی والہانہ محبت کا اظہار ہے۔شاعر نے ایک طرف حقیقی زندگی کی علمی تصویر پیش کی ہے وہیں بین السطور میں تصوف کے اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں۔بقول عزیز حامد مدنی" صابر ظفر نووارد نہیں ہیں ۔غزل کے آہنگ میں اچھے الفاظ، نئے بول اور اپنے روپ کی کہانی کے بہاؤ کو ملا دینے سے ان کی آواز دوسروں کو خوش کرے گی ،احتیا ط اور جی جلا کرکلام کہنے والے کو ہر محفل خوش آمدید کہتی ہے اور وہ ظفر کے تازہ کلام کی منتظر ہے۔"
نام مظفر احمد اور تخلص ظفر ہے۔۱۲؍ستمبر ۱۹۴۹ء کو تحصیل کہوٹہ، ضلع راول پنڈی میں پیدا ہوئے۔ ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری کی ابتدا ۱۹۶۸ء سے ہوئی۔ انھوں نے دوسال بذریعہ ڈاک رئیس امروہوی سے اصلاح لی۔ ماہ نامہ ’’اپنی زمین‘‘ میں کچھ عرصہ بطور معاون مدیر کا م کیا۔ آج کل حکومت سندھ کے محکمۂ اطلاعات کے پبلی کیشنز سیکشن سے وابستہ ہیں۔ ان کے تاحال ۲۲ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ چند نام یہ ہیں:’’ابتدا‘، ’دھواں اور پھول‘، ’پاتال‘، ’جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی‘، ’دریچہ بے صدا کوئی نہیں‘، ’لہو ترنگ‘، ’دکھوں کی چادر‘، ’بارہ دری میں شام‘، ’اک تری یاد رہ گئی باقی‘، ’عشق میں روگ ہزار‘، ’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘، ’چین اک پل نہیں‘، ’اپنے رنگوں میں ڈوب جانے دے‘،’محبت کا نیل کنٹھ‘، ’نامعلوم‘، ’پرندوں کی طرح شامیں‘۔ ان کے کئی گیت مقبول عام ہوچکے ہیں۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:399
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets