Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایڈیٹر : محمد حسین حسان

شمارہ نمبر : شمارہ نمبر-09

اشاعت : 001

جلد نمبر : 23

ناشر : سید عابد حسین

مقام اشاعت : دلی, انڈیا

سن اشاعت : 1940

زبان : Urdu

موضوعات : رسالے

ذیلی زمرہ جات : پیام تعلیم،دہلی

صفحات : 46

معاون : اردو آرٹس کالج، حیدرآباد

مہینہ : September

پیام تعلیم
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

میگزین: تعارف

اس رسالے کے روح رواں ڈاکٹر ذاکر حسین تھے۔ ڈاکٹر عابد حسین پی ایچ ڈی برلن جیسے دانشور کی سرپرستی کی وجہ سے اس رسالہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اپریل؍1926ء میں یہ پندرہ روزہ تعلیمی رسالہ کی شکل میںجاری ہوا، پھر ماہنامہ بن گیا۔ 1956ء میں اس کی اشاعت بند ہوگئی تھی پھر اس کی اشاعت ثانی جولائی 1964ء میں عمل میں آئی اور محمد حسین حسان ندوی جامعی اس کے مدیر بنائے گئے۔ جو خود بچوں کے معروف کہانی کار اور ادیب تھے۔ ’’دنیا کے بچے‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ وہ برسوں تک اس رسالے کی ادارت کرتے رہے اور نوک و پلک سنوارکر خوب سے خوب تر بناتے رہے۔ انہوں نے چھوٹاچمو، ننھا پپی کے علاوہ ’’پیام تعلیم کی کہانی‘‘ کے عنوان سے بھی ایک کہانی لکھی جس میں رسالہ پیام تعلیم کے آغاز و ارتقاء کی پوری داستان ہے۔ اس رسالہ کو بھی مشاہیر قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا۔ اس کے سرورق پر ایک بہت ہی معنی خیز عبارت ہوا کرتی تھی کہ ’’جاگو اور جگاؤ‘‘ اور یہ شاید واحد رسالہ تھا جو یوپی ، سی پی، برار، میسور، حیدر آباد، کشمیر وغیرہ کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے منظور شدہ تھا۔ اس رسالے نے بہت سے اہم تجربے کئے۔ اس کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رسالہ نے ہر عمر کے بچوں کے ذوق اور ذہن کا خیال رکھا تھا۔ اس کے ایک گوشے میں بچوں کے لئے مضامین ہوتے تھے اور دوسرے گوشے میں بڑے لڑکوں کے لئے اور تیسرے گوشے میں لڑکیوں کے لئے۔ پیام تعلیم میں موضوعات کی سطح پر بھی تنوع کا خیال رکھا جاتاتھا۔ معلوماتی اور مفید فیچرس کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ مقبولیت تھی۔ کشیدہ کاری، باغبانی، فوٹو گرافی اور دیگر دلچسپ موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی اور اداریے میں بطور خاص بچوں سے تخاطب ہوتا تھا۔ ان کے مسائل اور مشکلات پر گفتگو ہوتی تھی۔ اس لئے اس رسالے میں بچوں کی بہت دلچسپی تھی۔ پیام تعلیم کا سب سے پہلا شمارہ اپریل 1926ء میں نکلا تھا جو پندرہ روزہ کی شکل میں تھا۔ تو اس وقت امیر جامعہ حکیم اجمل خان تھے۔ انہوں نے بچوں کے نام ایک اہم پیغام بھیجا تھا جس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ انہوں نے بچوں کو نصیحت کی تھی: ’’تم اکیلے ہو ‘‘یا اوروں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہو یا مدرسے میں یا کھیل کے میدان میں ہر جگہ اور ہمیشہ وہ کرو جو سچ مچ تمہارا من چاہتا ہے۔ اپنی اصلی دلی خواہشوں کو دباؤ مت دوسروں سے ڈر کر یا دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر، دوسروں کی خواہ مخواہ نقالی نہ کرو خود اپنی اپج سے کام کرو۔ ایسا کروگے تو تمہارا ذہن، تمہاری سیرت، تمہارا جسم سب کے سب اچھی سے اچھی شکل اختیار کریں گے جن کے حاصل کرنے کی صلاحیت و قدرت ان میں رکھی ہے۔ ‘‘ محمد حسین حسان کے دور ادارت میں پیام تعلیم کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں 1938ء کا سالگرہ نمبر اور نومبر دسمبر 1946ء کا جوبلی نمبر قابل ذکر ہیں۔’’پیام تعلیم‘‘ نے ادب اطفال میں ان کی ادارتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نومبر 1974ء کا شمارہ حسین حسان نمبر کی صورت میں شائع کیا۔1974میں حسین حسان کے انتقال کے بعد ولی شاہجہاں پوری نے پیام تعلیم کی ادارت سنبھالی۔ ان کے بعد مکتبہ جامعہ کے منیجر شاہد علی خان اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ شاہد علی خان کے ریٹائر منٹ کے بعد مکتبہ جامعہ کے ڈائرکٹر اس کے ایڈیٹر بنائے جاتے رہے جس میں نائب مدیر کی حیثیت سے محفوظ عالم اپنی خدمات مستقل طور پر انجام دے رہے ہیں۔ ’’پیام تعلیم‘‘ ہی وہ رسالہ ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند کی کہانی ’’ابو کی بکری‘‘ سب سے پہلے شائع ہوئی۔ اسی رسالے میں رقیہ ریحانہ کے نام سے ان کی بہت سی کہانیاں اشاعت پذیر ہوئیں۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مضامین شائع کرنے کا شرف بھی پیام تعلیم کو حاصل ہے۔ محترمہ صالحہ عابد حسین (مصداق فاطمہ) کی بیشتر تخلیقات اسی رسالہ میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کے علاوہ پیام تعلیم میں جوش ملیح آبادی، جگر مرآبادی، شفیع الدین نیر، (جن پر پیام تعلیم کا خاص نمبر بھی شائع ہوا) یوسف ناظم، علقمہ شبلی، سلمیٰ جاوید، مسعودہ حیات، افسر میرٹھی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر رشید احمد صدیقی، قدسیہ زیدی ،محمد یوسف پاپا وغیرہ کی نگارشات بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کا ایک مقبول سلسلہ سفرنامۂ ابن بطوطہ بھی تھا جس کے مصنف مولانا مقبول احمد سیوہاروی تھے۔ پیام تعلیم میں زیادہ تر گاندھیائی افکار و نظریات کی تبلیغ ہوتی تھی اس لئے بعض قارئین کو یہ رسالہ کمیونسٹ خیال کا لگتا تھا۔ ’’پیام تعلیم‘‘ کے ایک قاری نے لکھا کہ یہ پرچہ کمیونسٹ خیال کا ہے۔ اس میں گاندھی اور لینن کی باتیں ہمیشہ رہا کرتی ہیں۔ یہ پرچہ مسلمانوں کا دماغ بدل کر رکھ دے گا۔ جواب میں مدیر نے لکھا کہ یہ بچوں کا تعلیمی پرچہ ہے اس میں ہر طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہے اور بچوں میں بہت مقبول ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

ایڈیٹر کی مزید کتابیں

مدیر کے دیگر رسائل یہاں پڑھئے۔

مقبول عام رسائل

مقبول ترین رسائل کے اس منتخب مجموعہ پر نظر ڈالیے اور اپنے مطالعہ کے لئے اگلا بہترین انتخاب کیجئے۔ اس پیج پر آپ کو آن لائن مقبول رسائل ملیں گے، جنہیں ریختہ نے اپنے قارئین کے لئے منتخب کیا ہے۔ اس پیج پر مقبول ترین اردو رسائل موجود ہیں۔

مزید
بولیے