aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ڈاکٹر کلیم عاجز کی شاعری عوام کو بے حد متاثر کرتی ہے کیونکہ انکا انداز سادہ اور معاشرتی اقدار کا حامل تھا۔ امتیازی شاعرانہ خدمات کے لیے حکومت ہند نے انھیں 1982ء میں ‘پدماشری’ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ "پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا" کلیم عاجز کی نعت، غزل اور نظموں کا مجموعہ ہے ، اس مجموعہ کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں کلیم عاجز کی لکھی گئی نعتیں ہیں ، دوسرے حصے میں غزلیں پیش کی گئی ہیں، تیسرے حصے میں ان کی نظمیں شامل ہیں،چوتھے حصے میں سہرے ہیں جبکہ پانچویں اور آخری حصے میں کلیم عاجز کی رباعیات اور متفرق اشعار شامل کئے ئے ہیں ،اس مجموعہ میں سب سے زیادہ تعداد غزلوں کی ہے، یہ غزلیں عام طور پر ابتدائی دور میں لکھی گئی تھیں ، ڈاکٹر وسیم صاحب نے ابتدائی زبانے کی لکھی گئی ان غزلوں کو مختلف جگہوں سے تلاش کرکے یکجا کیا اور پھر ان کو اس کتاب میں شامل کر دیا۔اس کتاب کے ہر حصے کے شروع میں کلیم عاجز کا تصنیف کردہ دیباچہ بھی شامل ہے جس دیباچےسے کتاب میں موجود تخلیقات اور ان کے پس منظر کے حوالے سے جانکاری ملتی ہے۔
کلیم الدین احمد، قلمی نام ’’کلیم عاجز‘‘ شاعری کی دنیا میں ایک بڑا نام شمار کیا جاتاہے۔ ان کی پہچان بحیثیت شاعر ہی نہیں ایک مفکر اور ماہر تعلیم کے طور پر بھی ہوئی۔ پٹنہ سے متصل ضلع نالندہ جو قدیم بہار میں بدھشٹوں کا مامن و مسکن رہا، وہیں کے ایک گاؤں تلہرا میں ان کی پیدائش 1920 میں ہوئی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور ایم ے اردو کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہیں سے ڈاکٹریٹ کی امتیازی ڈگری سے بھی سرفراز ہوئے۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’بہار میں اردو ادب کا ارتقا‘‘ تھا، ان کی متعدد تصانیف اور شعری مجموعوں کے علاوہ وہ مقالہ بھی اب کتابی شکل میں موجود ہے۔ ڈاکٹریٹ کے بعد پٹنہ یونیورسٹی ہی میں بحیثیت استاد منتخب ہوئے۔ محض 17 سال کی عمر سے شاعری کرنے لگے اور شاعری کی دنیا میں انہیں میر ثانی کے طور پر جانا گیا۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ کلام 1976 میں سامنے آیا جس کا اجرا نئی دہلی کے وگیان بھون میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر فخرالدین علی احمد کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ غزلیہ اور نظمیہ دونوں ہی صنفوں میں انہیں کمال حاصل رہا، ان کا مجموعہ کلام ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ 1975 میں شائع ہوا، ’’جب فصل بہاراں آئی تھی‘‘ 1990 میں، ’’ابھی سن لو مجھ سے‘‘ 1992 میں اور ’’کوچہ جاناں جاناں‘‘ 2002 میں شائع ہوا۔ 60-70 کی دہائی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلع دہلی میں منعقد ہونے والے مشاعرہ میں بہار کی نمائندگی کے لئے انہیں ہر سال مدعو کیا جاتارہا۔ سبکدوشی کے بعد اردو ایڈوائزری کمیٹی آف بہار کے چیئرمین رہے۔
کلیم عاجز نثر نگاری پر بھی خاصہ دسترس رکھتے تھے۔ ’’مجلس ادب‘‘ تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب کے علاوہ تحقیقی مقالوں کا مجموعہ ’’دفتر گم گشتہ‘‘ ایک سفر نامہ جو سفر حج کے بعد انہوں نے ’’یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ‘‘ 1981 میں تحریر کیا، دوسرا سفر نامہ امریکہ ’’ایک دیش ایک بدیسی‘‘ بالترتیب 1978 اور 1979میں شائع ہوا۔ غزلوں، نظموں اور رباعیات پر مبنی ایک کتاب جسے ڈاکٹر وسیم احمد نے مرتب کیا ہے، 2008 میں منظر عام آیا۔ پدم سری کے علاوہ متعدد اعزازات سے سرفراز ہوئے، ان کی وفات 14 فروری 2015 میں ہوئی۔ جنازے کی نماز پٹنہ کے گاندھی میں ہوئی اور آبائی وطن تلہرا میں مدفون ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets