aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ماضی قریب تک خانقاہوں میں فارسی شعرو ادب کے عالم ہواکرتے تھے اور ان کا تعلق بھی فارسی کے ساتھ اردو شعروادب سے ہوا کر تا تھا۔ یہ رسالہ بھی خانقاہی ماحول کانیتجۂ فکر ہے۔ ہندو ستان صدیوں سے صوفیوں او رخواجگان کا دیس رہا ہے۔خواجہ معین الدین چشتی سے خواجہ میر درد تک سیکڑوں صوفی اس سر زمین کا حصہ بنے ۔ ان بزرگوں کے مر یدین کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ انہوں نے اپنے اپنے طرح سے مرشدین کو خراج عقیدت پیش کی۔ زیر نظر کتاب بھی اسی عقیدت کی ایک کڑی ہے، جو ایک طرح سے حاجی وارث علی شاہ صاحب کی منظوم سوانح عمری ہے، جو مثنوی کی ہیئت میں ہے۔
بیدم شاہ وارثی کا اصل نام غلام حسین تھا ۔ پیر و مرشد سید وارث علی شاہ نے ان کا نام بیدم شاہ وارثی رکھا تھا۔ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید انور تھا۔وہ اٹاوہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی اٹاوہ میں ہی ہوئی ۔دوسروں کی غزلیں سن کر گنگنایا کرتے تھے ۔ شاعر بننے کی تمنا میں آگرہ گئے اورثار اکبرآبادی کے شاگرد ہوئے ۔وہ اپنے صوفیانہ ،عارفانہ کلام اور مخصوص مزاج کی وجہ سے سراج الشعراکہے جاتے تھے ۔نعت گو کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔’’مصحف بیدم‘‘ کے نام سے ان کا مجموعۂ کلام چھپ چکاہے۔1936میں حسین گنج لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔انہوں نے اپنے پیر و مرشد کی منظوم سوانح پھولوں کی چادر کے عنوان سے لکھی ۔ان کی شاعری میں صوفیانہ اور عارفانہ کلام کے علاوہ صنفی طور پر بھجن ،ٹھمری،دادرااور پوربی بھاشا کے کلام ملتے ہیں ۔آج بھی ان کا کلام لوگوں کی زبان پر ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets