aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رئیس امروہوی نے شاعری میں غزل اور نظم نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شناخت کی واحد وجہ ان کے قطعات نگاری بن گئی ہے۔جو انھوں نے مسلسل چالیس سالوں کے دوران لکھے ہیں۔جو عملی ، ادبی، سماجی ،سیاسی ،قومی ،بین الاقوامی، تقریبا زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔شاعر نے اپنے عہد کے تقریبا ہر واقعہ کو قطعات کے پیرائیہ میں پیش کیا ہے۔ ان کے قطعات چار جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر جلد چہارم میں ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۶ تک کے قطعات شامل ہیں۔ اس طرح شاعر نے اپنے قطعات کو زمانی اعتبار سے ترتیب دیتے ہوئے ،اپنے ملک کی تاریخی واقعات کو بھی یکجا کردیا ہے۔ نیز ہر قطعہ کو ایک مستقل عنوان کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
نام سید محمد مہدی، تخلص رئیس اور عرفیت اچھن تھی۔ ۱۲؍ستمبر۱۹۱۴ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔۱۹۱۸ء میں مکتبی تعلیم شروع ہوئی۔ان کی تعلیمی عمر کا زیادہ حصہ مطالعہ میں گزرا۔ پہلا شعر ۱۹۲۴ء میں کہا۔ ادب وصحافت سے عملی تعلق کی ابتدا ۱۹۳۱ء میں ماہ نامہ ’’حیات‘‘ کی ادارت سے کی۔ متعدد اخبارات اور رسائل سے متعلق رہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں رئیس ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ تین سال تک وہ بہ حیثیت مدیر روزنامہ ’’جنگ ‘‘ کراچی سے وابستہ رہے۔ چالیس سال سے زیادہ روزنامہ ’’جنگ‘‘میں حالات حاضرہ پر روزانہ ایک قطعہ لکھتے رہے۔ ۲۲؍ ستمبر ۱۹۸۸ء کو کسی نامعلوم شخص کی گولی سے کراچی میں انتقال کرگئے۔ رئیس اکادمی کے زیر اہتمام ان کی تیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں پانچ مجموعے نظم وغزل کے شامل ہیں۔ نثری کتب کے موضوعات نفسیات ، مابعد النفسیات، ہپناٹزم، جنات، عالم برزخ، حاضرات ارواح، عالم ارواح، روحانیت اور فلسفہ بشریات ہیں۔ ان کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’الف‘‘، ’’پس غبار‘‘، ’’حکایات نے‘‘، ’’ملبوس بہار‘‘، ’’قطعات‘‘(اول ودوم)، ’’بحضرت یزداں‘‘، ’’نجم السحر‘‘، ’’آثار‘‘، ’’انا من الحسین‘‘۔ ۱۹۸۴ء میں حکومت پاکستان نے ان کے ادبی خدمات کے صلے میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار شاعر تھے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:64
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets