aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ناوک صاحب اپنے افسانوں کے ذریعہ ان اخلاقی روایات کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم لوگ نئی روشنیوں کی چمک دمک میں بھولتے جارہے ہیں وہ عالم انسانیت کو ذہنی اور مادی کشمکش اور مہلک مرض سے بھی نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں، مطالبہ، تلاش نئے افق کی، اور کلائمکس ، وغیرہ میں انہوں نے اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔
ناوک صاحب آج کے معاشرہ کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں مذہب اور عورت کے خلاف انہوں نے ایک انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ پریشان حال اور مظلوم لوگوں کی پشت پناہی کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں، ان کی سب سےبڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا انداز بیان بہت ہی اچھا ہے تقریبا ہر افسانے میں کہانی بن موجود ہے زبان وبیان اتنا عام فہم ہے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
زبان کی نزاکتوں پر عبور حاصل کئے بغیر بیان میں ایسی نازکی طانا محال ہے ناوک حمزہ پوری کی انسان دوستی انسانی خامکاریوں پر گرفت کے دوران بھی تحریر میں ایک قسم کی لطافت اور ہمدردانہ احساس سے اپنا رشتہ بر قرار رکھتے ہیں۔
ناوک صاحب عام طور پر موضوعات کی پیش کش پر زوردیتے ہیں وہ ادب کو زندگی کا آئینہ بردار سمجھتے ہیں بیانات پر زیادہ زوردیتے ہیں اس لئے ان کے فن میں نزاکت ہے۔ ایک طرف وسیع آنگن میں منڈوے تلے اپنی دھن میں مست محلے ٹولے کی عورتوں کے غول ڈھولک کی تھاپ پر گیت کے بول کھولوتو بال بڑے بڑے ہیں ل اڈ وتیرے نینا، گونج رہے ہیں تو دوسری طرف ایک گوشہ میں محلے کی بڑی بوڑھیاں ، دلہن کے مطالبے پر آنکھ بھوں چمکاتی چہ میگوئیاں میں مشغول ہیں۔’’مطالبہ‘‘پھلن، منابوب، نقشہ، نوشتہ تقدیر، اور میں کی تلاش، اچھی کہانیاں ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets