aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
راجندر سنگھ بیدی اردو افسانہ نگاری کا ایک اہم نام ہے۔کرشن چندر اور منٹو کے مقابلے میں انھوں نے کم لکھا،اس لیے ان کے افسانے کے قاری سے ان کی ملاقات کم ہوئی۔اسی لیے ان کی کہانیوں کے بارے میں بھی کم لکھا گیا۔اس کے علاوہ بیدی نے اپنے افسانوں کی زبان پر بھی زیادہ توجہ نہیں دی،انھوں نے نسبتا الجھا ہوا اور استعاراتی انداز بیان اختیا رکیا۔ انھوں نے زبان کو سنوارنے کے معاملے میں بھی دلچسپی نہیں لی۔ لیکن بیدی نے زندگی اور سماج کا مطالعہ اسکی اجتماعیت میں نہیں کیابلکہ سماجی حقیقت نگاری کے بیان کے لیے ایک الگ راہ نکالی،انسانوں کے باہمی رشتوں ،وابستگیوں ،رفاقتوں ،رقابتوں کی بنیاد پر تہذیبی و سماجی عوامل کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔سماجی حقیقتوں کے بیان کے لیے انھوں نے ضرورت پڑنے پر زبان اور اسلوب بیان کے مروجہ سانچوں کو توڑا بھی ہے۔زیر نظرکتاب "بیدی ایک سماجی و تہذیبی مطالعہ" میں مصنف نے بیدی کے اسلوب اور تخلیقات کا صحت مند تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔بیدی کی تخلیقات کا یہ جائزہ تہذیبی و ثقافتی نقطہ نظر کا حامل ہےنہ کہ استعاراتی و اساطیر ی کا۔اس مطالعہ سے بیدی کا سماجی و تہذیبی شعور واضح طور پر سامنے آجائے گا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free