aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یکم؍دسمبر 1940ء کو بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر ساگر میں پیدا ہوئےـ نئے مدھیہ پردیش کی تشکیل کے فوراً بعد آپ بھوپال آگئے اور آخر عمر تک یہیں رہےـ اوائل عمر سے لے کر آخر عمر تک آپ نے اپنی پوری زندگی شعر و ادب کے لیے وقف کردی تھی ـ نصیر پرواز کے شعری سفر کا آغاز 1950 میں ترقی پسند شاعری کے زوال کے بہت بعد ایسے دور میں ہوا جب کہ اس کے شکست خوردہ سپہ سالار اپنی تحریروں سے مردہ ڈھانچے میں روح پھونکنے کی کوشش میں سرگرداں تھےـ تحریک اگرچہ ختم ہوچکی تھی لیکن اس کے اثرات نئی پیڑھی کے شعرا کو کسی نہ کسی شکل میں متاثر کررہے تھےـ نصیر پرواز نے اس کا اعتراف یوں کیا ہے:
”میرے ذہن کو سب سے پہلے جس آہنگ سے دوچار ہونا پڑا وہ یہی ترقی پسند تحریک تھی“۔
اس اعتراف کے باوجود آپ کی غزلیں ترقی پسند شاعری کے اثرات سے پاک نظر آتی ہیں ـ آپ کی غزل نہ غم دوراں کی تاریخ ہے نہ غم جاناں کا مرثیہ ـ آپ کی شاعری کا قالب زندگی کی تلخیوں اور عریاں حقیقتوں پر کھڑا نظر آتا ہےـ آپ کے دائرۂ نگاہ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز رہتی ہے جو شعر کے پیراہن میں حسین و جمیل بن کر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہےـ آپ کی شاعری میں قدیم و جدید کا امتزاج ہی نہیں بلکہ عصری حسیت، جدت طرازی، فکری گہرائی، زبان کی شگفتگی اور الفاظ کو برتنے کا سلیقہ موجود ہےـ آپ کے نو شعری مجموعے منظر عام پر آئےـ
متاعِ دیدۂ تر: 1985، ایک تنہا صدا : 2001، رسول اکرمﷺ (منظوم سیرت پاک)، اضطراب لفظوں کا، آہٹیں، ایک غزل، سفر درپیش ہے، لمحوں پہ صدیاں، میر رنگ اور کرب خود آشنائی ـ(سبھی 2016 میں منظر عام پر آئے)۔
نصیر پروازؔ 20؍اپریل 2021ء کو بھوپال مدھیہ پردیش میں انتقال کر گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets