aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو غزل کا نیا رخ متعین کرنے والے بے نظیر و بےمثال شاعر شکیب جلالی کا خاندانی نام سید حسن رضوی رکھا گیا۔ ان کا خاندان متحدہ ہندوستان کے علم دوست شہر علی گڑھ کے مردم خیز قصبہ جلالی سے بسلسلہ روزگار ہجرت کرکے اتر پردیش کے ثقافتی اور تہذیبی مرکز بدایوں میں آباد ہوا۔ جہاں یکم اکتوبر 1934 عیسوی کو بدایوں کے محکمہ پولیس سے منسلک سید صغیر حسین رضوی اور سیدہ زبیدہ خاتون کے گھر دوسری اور نرینہ اولاد کی حیثیت سے ایک بچے نے آنکھیں کھولیں۔ بعد میں تین بہنیں اور پیدا ہوئیں ہوں چار بہنوں کے اکلوتا اور لاڈلا بھائی ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی محبتوں کا مرکز بنا اور اس بچے کو "سلطان" کے نام سے پکارا جانے لگا۔ بیٹے کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد بسلسلہ ملازمت سلطان کے والد بدایوں سے بریلی منتقل ہوگئے۔ جہاں سلطان کے تعلیمی سفر کا اغاز 1940ع میں اسلامیہ کالج بریلی سے ہوا جو درجہ ششم تک جاری رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی جس کی وجہ سے سرکاری اور بلخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا، ان حالات میں سلطان کے والد کسی متنازعہ گرفتاری کے باعث محکمہ جاتی کاروائی کا شکار ہوکر معطل ہوگئے اور ان کا رجحان وردر و اذکار اور سیر و سلوک کی طرف ہوگیا جو بڑھتے بڑھتے جذب کی کیفیت کو چھونے لگا۔
ابھی "سلطان" کی عمر دس یا گیارہ سال تھی کہ ان کی والدہ ریل گاڑی کے ایک متنازعہ حادثہ کا شکار ہوکر دارفانی سے کوچ کر گئیں جس کا الزام ان کے شوہر کے سر آیا اور عدالتی کاروائیوں کے دوران پہلے جیل پھر بنارس کے دماغی اسپتال منتقل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کو بریلی کے دماغی اسپتال بھیج دیا گیا جہاں سے وہ 1965ع میں ڈسچارج ہوکر 1966ع میں اپنے آبائی گھر پنڈاول میں انتقال کرگئے۔ والدہ اور والد کی ناگہانی جدائی کے بعد سلطان چاروں بہنوں کے ساتھ بدایوں میں رہائش پزیر اپنی کثیر العیال ننھیال منتقل ہوگئے۔ دوبارہ سے ان کا تعلیمی سفر درجہ ہفتم میں داخلہ کے ساتھ نیشنل اسلامیہ اسکول بدایوں سے شروع ہوا۔ یہیں 11 یا 12 سال کی عمر میں ان کی شاعری کی ابتدا ہوئی اور علاقائی ادبی تنظیم "گلشن علم" کے سیکٹری مقرر ہوئے۔ اس کے علاؤہ "انجمن اقبالِ ادب" اور "انجمن دربارِ ادب" کے تحت تقریری اور ادبی مقابلوں میں خوب کامیابیاں سمیٹیں۔ تقسیم کے بعد 1948ع کے ابتدائی ایام میں "سلطان" کے ننھیال نے ہجرت کا فیصلہ کیا تو سلطان کی چاروں یتیم بہنیں بھی ان کے ساتھ راولپندی پاکستان ہجرت کرگئیں۔ سلطان کے میٹرک کے امتحان سر پر تھے اس لیے "سلطان" بدایوں میں اپنے دوست ظفر لودھی کے گھر ٹھہر گئے جس کی شرط یہ رہی کہ سلطان کمرے کے دو روپے کرائے کے عوض ظفر کو ٹیوشن پڑھائیں گے۔ میڑک کے امتحان کے فوراً بعد 1948ع میں ہی سلطان نے پاکستان کے شہر راولپنڈی اپنی ننھیال کی طرف ہجرت کی اور یہیں سے بن ماں اور باپ کے "سلطان" کا "شکیب جلالی" بننے کا سفر نیا رخ اختیار کرتا ہے۔
منقسم ہندوستان کے ساتھ "سلطان" کی روح بھی تقسیم ہو چکی تھی۔ حادثاتی موت کی شکار ماں کی قبر اور قید میں جکڑا باپ ہندوستان میں اور چار بہنوں کی ذمہ داری لیے 14 سالہ "سید حسن رضوی عرف سلطان" کا وجود پاکستان میں۔ راولپنڈی پاکستان پہچتے ہی خوددار سلطان نے مقامی ڈمپ میں پہلی ملازمت کی پھر سینڑل کوآپریٹیو بنک میں ملازمت اختیار کی۔ ملازمت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا سلسلہ پہلے "کمال" اور پھر "شکیب جلالی" کے تخلص کے ساتھ جاری رہا۔ راولپنڈی سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ 1952ع میں ان کی ادارت میں ماہنامہ "گونج" کا اجراء بہت دھوم دھام سے ہوا۔ گونج اور دیگر جرائد میں افسانہ نگاری کے لیے "شکیب" نے "رمزگاہی" کے نام اختیار کیا۔ ماہنامہ گونج جس "دھوم" سے نکلا کچھ اشاعتوں کے بعد اسی طرح سے ماجد الباقری کے ساتھ اختلافات کی نظر ہوکر بند ہوگیا. شکیب کی بڑے ماموں کا تبادلہ راولپنڈی سے کراچی ہوا تو پوری ننھیال بھی کراچی منتقل ہو گئی۔
اس منتقلی سے پہلے سلطان نے بڑی بہن کی شادی کردی تھی جن کے شوہر دہلی سے لاہور ہجرت کرکے آئے تھے اور کتابوں کے وسیع کاروبار سے منسلک تھے۔ خاندان کے کراچی منتقل ہونے کے بعد شکیب لاہور منتقل ہوئے جہاں بہنوئی کو ایک بااعتماد سہارے کی ضرورت تھی جو نئے قائم کردا ادارے جاوید لمیٹڈ کی سیالکوٹ شاخ کی دیکھ بھال کرسکے۔ شکیب 1953ع میں اس ادارے کی سیالکوٹ شاخ کے مسئول مقرر ہوئے۔ سیالکوٹ سے ماہنامہ "عجیب" نکالنے کی کوشش کی، بی اے پاس کیا، مگر جاوید لمیٹڈ نے کاروباری مندی کے باعث سیالکوٹ شاخ بند کردی اور شکیب کا تبادلہ لاہور ہوگیا۔ 1955ع میں لاہور سے ہفت روزہ "وحدت" اور پھر "شاہکار" کی ادارت کی جو بعد میں "جاوید" کے نام سے شائع ہوا۔ مگر پھر مالی خسارے کے باعث بند ہوگیا۔ اس مستقل معاشی تک و دو کے درمیان اپنی دو چھوٹی بہنوں کی شادیاں سرگودھا میں انبالہ سے ہجرت کرنے والے ایک ہی گھر میں کیں۔
جنوری 1956ع میں والدہ کی پسند، بچپن کی منگیتر اور خالہ زاد سیدہ محدثہ خاتون سے کراچی میں شادی کی، دلہن کے ساتھ ساتھ بیوہ خالہ کی ذمہ داریاں لے کر واپس لاہور آئے اور پیسہ اخبار کے علاقے میں ایک چوبارہ کرائے پر لے کر رہائش اختیار کی، جگہ کی تنگی کے باعث کرشن نگر اپنے منجلے بہنوئی کے ساتھ کرائے کے مشترکہ مکان میں منتقل ہوگئے۔ شکیب کے لاہور میں قیام کے دوران گاہے بگاہے ان کی ملاقاتیں احمد ندیم قاسمی، سیف زلفی اور احسان دانش سے رہتیں مگر فنون لطیفہ کے مرکز میں رہنے کے باوجود شکیب پاک ٹی ہاؤس یا حلقہ ارباب ذوق کے چکر لگاتے نظر نہیں آتے۔ شاید اس کی وجہ ان کے اقتصادی اور مالی حالات رہے ہوں کیوں کہ اس دوران وہ تین تین ملازمتیں کرکے اپنے مالی حالات کا مقابلہ کررہے تھے یا پھر بقول ابو ضیا اقبال وہ خود پسندی کے شکار مجمع کو ناپسند کرتے تھے. لاہور میں قیام کے دوران بھی حوادث زمانہ جاری رہے مالی پریشانیاں ختم ہونے کا نام نہ لیتیں مگر شکیب ثبات قدم سے اپنے حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور ایک حرفِ شکایت بھی ان کی زبان سے جاری نہ ہوتا. باوجود سخت محنت اور تک و دو کے شکیب ساتھ ہی ساتھ اپنا ادبی مقام بھی متعین کرواتے نظر اتے ہیں۔ انہیں پوسٹ آفس میں ملازمت ملی پھر نہ رہی، 1958ع میں محکمہ تعلقات عامہ حکومت پاکستان لاہور میں نائب ترجمان مقرر ہوئے، جون 1959ع میں محکمہ تخفیف کی نذر ہوگیا، مستقل بےروزگاری کے دنوں میں روزنامہ "مغربی پاکستان" اور روزنامہ "مشرق" میں بھی جزوقتی کام کیا۔ بالآخر 1959ع میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پبلیسٹی اسٹنٹ کے طور پر مقرر ہوئے اور پاکستان کے متوقع دارلخلافہ جوہر آباد منتقل ہوگئے۔ یہاں سے ماہانہ "آبادکار" نکالا اور ادبی تنظیم "بزم جوہر" کا قیام عمل میں لائے جس کے صدر پروفیسر محمد یوسف شیدائی اور جرنل سیکریٹری مظفر حسن منصور مقرر ہوئے جب کہ جوہر نظامی اور شکیب جلالی اس بزم کے سرپرست ٹھہرے۔ بزم جوہر کی ہفتہ وار نشستیں منقعد کرواتے، شعر و سخن کی محفلیں سجتیں۔ بزم میں شریک نئے لکھنے والوں کی اصلاح اور تربیت شکیب کی ذمہ داری تھی۔
شکیب کی سرپرستی میں بزم جوہر کی انفرادیت یہ تھی کہ جن شرکاء کی مادری زبان اردو نہ ہوتی وہ انگریزی میں اپنی تخلیقات پیش کرتے جیسے بنگالی احباب انگریزی میں بنگال کے ادب کلچر اور تہذیب پر گفتگو کرتے۔ بزمِ جوہر کی نشستوں میں جوہر نظامی، قیصر بارہوی، حسن اختر جلیل، یوسف شیدائی، احمد ہمیش، نسیم بخاری، منظر کاظمی، مقصود علی خان، نسیم باجوہ پروفیسر مقصود علی خان بدایونی وغیرہ شریک رہتے۔ بقول مظفر حسن منصور (جن کے والد جوہر نظامی خود بھی ایک منجھے ہوئے شاعر تھے اور انہوں نے خود مظفر حسن منظور کو شکیب کی شاگردی میں دیا تھا) "شکیب جلالی نے بطور استاد نظم و غزل میں میری رہنمائی کی ان کی اصلاح کا طریقہ مختلف تھا وہ مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔ غزل میں دو مصرعوں میں ربط پر زور دیتے تھے۔کبھی کسی مصرع میں جھول دیکھتے یا ڈھیلا محسوس ہوتا تو اسے (خود سے) ٹھیک کرنے کی ترغیب دیتے۔ اپنی طرف سے کوئی مصرع یا شعر ھدیہ نہیں کرتے۔ البتہ کبھی پھنس جاتا تو اپنی طرف سے مشورہ بھی دیتے۔ نظم میں خیال کی رو کو اہمیت دیتے تھے۔ ترتیب نزولی کے مطابق ڈھالنے کا مشورہ دیتے تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ نظم اسی طرح اتری ہے۔ جوہر آباد میں ان کا (شکیب جلالی) قیام میرے لیے نعمت غیر مترقبہ کا درجہ رکھتا ہے مجھے شعر کہنے کے اسلوب سے کماحقہ آگاہ کیا شاعری کے جدید پیمانوں پر میری تربیت کی۔ ان کی نگاہ بصیرت افروز نے میرے ٹیلنٹ کو اجاگر کیا"۔ جوہر آباد ہی کی ایک تقریب کا حوالہ دیتے ہوئے سلیم حسن مرزا کہتے ہیں۔ میں نے اپنا افسانہ پڑھا، شرکا کی طرف سے اس پر حوصلہ افزاء گفتگو رہی۔ تقریب کے بعد شکیب جلالی نے اکیلے میں مجھ سے کہا "میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تمہارا مشاہدہ تو کافی حد تک محسوس ہوتا ہے مگر مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر افسانہ لکھنا ہی چاہتے ہو تو سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی کا مطالعہ کرو"۔ ایک اور جگہ مرزا صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے غزل پر طبع آزمائی شروع کی اور ایک محفل میں غزل پیش کی جس کا مطلع پٹری سے اترا ہوا تھا، خیر اختتامِ محفل پر شکیب صاحب مجھے سب سے الگ لے گئے اور کہا "میری ایک بات یاد رکھیں کہ جب کسی اجنبی یا نئے ملنے والوں کے سامنے کچھ پڑھیں تو پہلے اپنے کسی سینئر کو دکھا لیا کریں". ادبی لحاظ سے اس خوش کن ماحول میں حلیم الطبع اور حساس شکیب کو دو حادثات سے گزرنا پڑا مگر ان کے ظاہری مزاج میں کوئی فرق نہ آیا۔ پہلا صدمہ جب ہوا جب منتوں مرادوں سے پیدا ہوا نومولود بیٹا کراچی میں اپنی پیدائش کے کچھ ہی دن بعد شکیب کی سب سے چھوٹی بہن کے ہاتھوں ایک ناگہانی حادثہ میں وفات پاگیا۔ دوسرا سانحہ 1960ع میں ہوا جب حتی المقدور علاج معالجہ کے باوجود ان کی بیوہ ساس اور ماں جیسی خالہ کا سرطان کے مریض سے طویل بیماری کے بعد انتقال ہوگیا اور حساس طبع شکیب اپنے آخری بزرگ کی شفقتوں سے بھی محروم ہوگئے۔
جوہر آباد میں شکیب جلالی کا افسر ایک انتہائی کوتاہ فکر شخص تھا جو شکیب کی خداداد صلاحیتوں، حسنِ خلق اور شہرت سے تعصب رکھتا تھا۔ شومئی قسمت بھکر قیام کے کچھ عرصہ بعد ایوبی آمریت کے سہولت کار اور پنجاب کے بڑے جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے گورنر نواب کالا باغ کا ایک قریبی علاقے کا دورہ طے ہوا۔ تھر ڈویلپمنٹ اتھارٹی چونکہ ایک سرکاری ادارہ تھا اور شکیب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ادبی شخصیت تھے لہذا گورنر کے لیے سپاس نامہ لکھنے کی ذمہ داری ان کے حصہ میں آئی جس سے انہوں نے صاف انکار کردیا کہ میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرانے والے ڈکٹیٹر کے جاگیردار نمائندے کی پزیرائی نہیں کرسکتا۔ اس بات کا ان سے حسد رکھنے والے افسر نے بہت زیادہ برا مانا اور اور اچھالا جس کی وجہ سے شکیب اور اس کے تعلقات کشیدہ رہنے لگے۔ یہ وہی وقت ہے جس کے بعد حساس طبع شکیب کو یہ محسوس ہوا کہ ان کے پیچھے "سی آئی ڈی" کے سادہ لباس اہلکار لگا دیے گئے ہیں اور ہر وقت کوئی ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ان کا یہ احساس روز بہ روز شدید ہوتا چلا گیا بلآخر وہ کہنے لگے کہ ایک دن جاگیردار گورنر کی ٹرانسپورٹ کمپنی کی کوئی بس مجھے سڑک پر کچل ڈالے گی۔
اگست 1963ع میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا صدر دفتر جوہر آباد سے پنجاب کے ایک انتہائی دورافتادہ مقام "بھکر" منتقل ہوگیا جہاں رہنے کا تصور بھی شکیب نے نہ کیا تھا مگر ملازمت کی وجہ سے ان کو جوہراباد سے بھکر منتقل ہونا پڑا جہاں وہ جولائی 1966ع تک رہے۔ بھکر میں شکیب کو دو خوشیاں ملیں ان میں ایک 21 اکتوبر 1963ع کو سات سال کے طویل انتظار کے بعد ان کے گھر بیٹے کی پیدائش تھی جس کا نام قبضہ سادات سرسی ضلع مراد آباد بھارت سے ان کی پھپھی زاد شمیم خاتون نے بذریعہ خط سید حسین اقدس رضوی تجویز کیا جو شکیب کو بہت پسند آیا۔ یہ وہ موقع تھا جب شکیب نے اپنی مشہور نظم "اندمال" لکھی۔ اس کے تقریباً ڈھائی سال بعد 6 جولائی 1966ع کو بیٹی سیدہ حنا بتول کی پیدائش ہوئی، جس کے مستقبل کے بارے میں وہ پیدائش سے ہی فکرمند رہنے لگے تھے۔
ستمبر 1965ع میں شکیب جلالی کے نام ہندوستان سے ان کے پھوپی زاد بھائی صابر علی کا خط آتا ہے جس میں ان کے والد کی دماغی اسپتال سے رخصت کا خوش کن ذکر تھا۔ اس خط میں انہوں نے لکھا کہ "آپ کے والد آپ کو بہت یاد کرتے ہیں" خط ملتے ہی شکیب بہت زیادہ بے چین ہوجاتے ہیں اور ہندوستان جانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ اسی اثناء میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے۔ سرحدوں پر آمد و رفت کی پابندی لگ جاتی ہے اور بےچین شکیب کی والد سے ملاقات ناممکن ہوجاتی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی جاری تھی، فروری 1966ع میں شکیب پر ان کے والد کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری اور ان کا یہ دیرینہ احساس شدید تر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے والد کی خدمت نہ کرسکے، باوجود شدید خواہش کے وہ ان سے ملاقات نہ کرسکے اور وقتِ آخر ان کے ساتھ نہ تھے۔ دوسری طرف دنیائے اردو ادب میں شکیب جلالی کے منفرد لہجہ، جدید اسلوب اور شاعرانہ کمال کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ہر ادبی رسالہ میں شکیب کو خوب پزیرائی مل رہی تھی، فنون، ادبِ لطیف، اوراق، لیل و نہار غرص تمام بڑے ادبی جریدوں میں شکیب چھپ رہا تھا اور خوب چھپ رہا تھا بلکہ فرمائش کرکے کلام منگوایا جاتا تھا۔ جہاں شکیب جلالی کے بھکر تبادلہ سے وہاں کی جامد ادبی فضا متحرک ہوئی وہیں اس تحرک کا اثر بھکر کے مقامی شعراء نے بڑی شدت سے منفی محسوس کیا۔
شکیب کا بھکر میں قیام دشمنوں کے درمیان ایک شام کی مانند تھا۔ بھکر کی شعراء "پنجو مار دیگرے نیست" کے مصداق کسی بیرونی شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے قائل نہ تھے۔ جب کہ ادبی رسائل میں اپنی تخلیقات چھپوانے کے لیے شکیب سے سفارشی رقعہ بھی لکھواتے۔ شعراء کا عمومی رویہ یہ تھا کہ منہ پر تعریفوں کے پل باندھتے مگر پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شکیب کے نام سے غیرمعیاری کلام ادبی رسائل کو بھیجا جانے لگا جس سے لاتعلقی کا اعلان شکیب کو چھپوانا پڑتا اس رویہ سے شکیب شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگے اور بھکر کے ادبی ماحول کو سخت ناپسند کرنے لگے۔ مگر ملازمت کی مجبوری تھی جس کی وجہ سے ذہنی الجھن کا شکار رہتے۔ حال یہ تھا کہ جو لوگ شکیب سے اصلاح لیتے وہ ہی شکیب سے حسد کرتے۔ الغرض شکیب کے لیے بھکر کا حاسدانہ ماحول زہرِ قاتل ثابت ہوا، انہیں وہاں کے بڑے مشاعروں سے دور رکھا جاتا۔ ان کے خلاف باقائدہ مہم چلائی گئی یہاں تک کہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی دخل اندازی کی کوششیں کی گئیں۔ جس کی وجہ سے شکیب اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو شدت سے غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ کچھ افراد نے شکیب جلالی کی شہرت، خداداد تخلیقی صلاحیتوں اور منفرد اسلوب سے اس قدر حسد کیا اور ایسے نیچ حرںے استعمال کیے کہ حساس طبع شکیب جو بچپن سے اب تک کے نامساعد حالات کا بڑی شجاعت، فراست اور غیرت مندی سے مقابلہ کررہے تھے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ بھکر کے شعراء کی شکایت کے طور پر شکیب کبھی کہتے انہیں کسی نے سگریٹ میں کچھ پلا دیا ہے، کبھی کہتے یہ لوگ مجھے نشہ پر لگا کر زندگی چھین لیں گے، کبھی کہتے ان لوگوں نے میری تراکیب چرا لیں، کبھی کہتے میرا مصرعہ سرقہ کرلیا ہے یا خیال اڑا لیا ہے۔ شکیب کی حالت زیادہ بگڑی تو شاعرِ اہلیبیت قیصر بارہوی کی ایما پر شکیب کی اہلیہ انہیں لے کر اپنی نندوں کی سسرال سرگودھا چلی آئیں کیوں کہ ننھیال بہت دور کراچی میں تھی اور ددھیال ہندوستاں میں۔ سرگودھا میں علاج کے وسائل سے ناامیدی پر شکیب کو لاہور بھیجا گیا۔ جہاں احمد ندیم قاسمی کے مشورے سے بغرض علاج سیف زلفی نے شکیب کو لاہور کے سرکاری دماغی اسپتال میں داخل کروایا۔ شکیب کے دوست سیف زلفی اور شفقت کاظمی گاہے بگاہے ان سے ملاقات اور تشفی کے لیے جاتے رہتے۔ کم و بیش ایک ماہ کے رائج الوقت دقیانوسی اور اذیت ناک علاج کے بعد شکیب کو ذہنی صحت کا سرٹیفکیٹ دے کر ڈسچارج کردیا گیا اور چند دن لاہور رہنے کے بعد 9 یا 10 نومبر 1966ع کو وہ سرگودھا اپنے بیوی اور دونوں ننھے بچوں کے پاس چلے آئے۔
سانحہ والے دن شکیب نے بچوں کو خوب پیار کیا اہلیہ سے گلے ملے سمجھایا کہ میرے بعد شدید محنت کرنی پڑے گی مگر تمہارا بڑھایا اچھا گزرے گا پھر کہا "جب بھی کسی سے ہاتھ ملانا تو بعد میں اپنی انگلیاں گن لینا کہ پوری ہیں یا نہیں"۔ اہلیہ رونے لگیں کہ آپ بالکل تندرست ہیں ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھی ہے یہ سن کر شکیب بھی رونے لگے۔ کسی کام سے اہلیہ کمرے سے باہر گئیں واپس آئیں تو دیکھتی ہیں کہ دیواری کارنر پر شکیب کے بازو کا تعویز، امام ضامن اور جیبوں کا سامان رکھا ہے۔ انہوں نے گھبرا کر محلے اور قریب کی پان سگریٹ کی دکانوں پر ڈھونڈنا شروع کیا مگر شکیب تو کہیں اور کے سفر پر تھے۔
شام پانچ بجے کے قریب پولیس نے اطلاع دی کی شکیب ٹرین کی زد میں آگئے ہیں۔ بیگم شکیب کے ساتھ گھر والے دیوانہ وار اسپتال پہنچے دھڑ الگ اور ٹانگیں الگ تھیں مسلسل خون بہنے سے بے ہوشی طاری تھی۔ اسپتال میں کوئی کہتا تھا حادثہ ہے کوئی خودکشی کہتا۔ بیوی کی چیخوں اور پکارنے پر شدید زخمی شکیب نے کوشش کرکے ہاتھ ہلایا اور ملک عدم کی طرف سدھار گئے۔۔۔ 12 نومبر 1966ع کو شکیب کا خاندان اپنی جان نچھاور کرنے والے سرپرست سے اور اردو ادب ایک ہمہ جہت جینئس ادیب، صحافی، مترجم، افسانہ نگار، تنقید نگار اور عظیم شاعر سے محروم ہوگیا۔
شکیب کی ہمہ جہت ادبی زندگی میں صحافت، تنقید اور شاعری کی مختلف اصناف (قطعات، رباعیات، نظم و غزل) کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری بھی اپنے پورے حسن کے ساتھ جلوے بکھیرتی نظر اتی ہے انہوں نے مختلف زبانوں کے اہم افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ مائکل سکروک، بی چن، موپساں، آتھر کاوئنٹ، ایم حجازی کے کم سے کم سات افسانوں کے بےمثل تراجم ریکارڈ پر موجود ہیں۔ شکیب کے ذخیرہ وراثت میں "کلرکی ایک متعدی مرض ہے" کے نام سے طنزیہ/مزاحیہ تحریر بھی ملتی ہے۔
جبکہ شہاب جعفری کی نظم "دھوپ چھاؤں" اور اعجاز فارق کی نظم "حرف" پر تجزیاتی مطالعے اور جوہر نظامی اور خلیل رامپوری پر خاکے بھی تحریری شکل میں دستیاب ہیں۔
باوجود ادبی دھڑے بندیوں کے پاکستان اور بھارت میں پی ایچ ڈی کی سطح پر کئی لوگوں نے شکیب جلالی اور ان کے فن پر کام کیا اور ڈاکٹریٹ کی اسناد حاصل کی، کئی یونیورسٹیوں میں ایم فل کے مقالہ جات تحریر ہوئے لیکن ابھی شکیب کی دریافت باقی ہے۔
آج شکیب کے انتقال کے دھائیوں بعد بھی ادبی دھڑے بندیوں، اقربا پروری، ساز و آواز کی بےساکھیوں کے بغیر شکیب شناسی کا سفر جاری ہے۔ شکیب کے بارے میں تنقید نگاروں نے خوب کہا کہ " شکیب جدید غزل کا امام ہے، کسی نے کہا شکیب اردو غزل کی امیدگاہ ہے، کسی نے کہا جئینس شکیب اتنی چھوٹی سی عمر میں اردو ادب کو وہ کچھ دے گیا جو لوگ اپنی پوری عمر میں نہیں دے پاتے، کسی نے کہا شکیب اردو کا کیٹس ہے، کسی نے کہا اگر شکیب نہ ہوتے تو آج اردو کے 100 شاعر نہ ہوتے، کسی نے کہا کہ شکیب کو سو سال کے بعد دریافت کیا جائے گا جیسے غالب کو کیا گیا"
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ شکیب جیسے صاحب اسلوب قادر الکلام شاعر کا ادبی ذخیرہ سنبھالنے والا کوئی نہ تھا سوائے واجبی تعلیم یافتہ ان کی بیوہ جنہوں نے حتی المقدور کوشش کرکے کلام کو سنبھالا اور شکیب کے دیرینہ دوست اور قدر دان احمد ندیم قاسمی کے حوالے ایک گٹھری کی صورت میں کیا جنہوں نے شکیب کے انتقال کے 8 سال بعد ان کے کلام کا انتخاب 'روشنی اے روشنی" بااہتمام "مکتبہ فنون" لاہور 1974ع میں شائع کیا۔ پھر اس کے بےشمار ایڈیشنز مکتبہ فنون، ماورا پبلیکیشن لاہور سے شائع ہوتے رہے۔
بھارت میں "روشنی اے روشنی" بااہتمام "مکتبہ دین و ادب" لکھنؤ سے اور دیوناگری رسم الخط میں دھلی سے چھپ کر مقبول عام ہوئی۔ حالیہ دنوں میں "رنگ ادب پبلیکیشن" کراچی نے "روشنی اے روشنی" کو نئے اہتمام سے پھر شائع کیا۔
بھارت سے شمس الرحمن فاروقی مرحوم، پروفیسر اسلوب احمد انصاری، ناصر شکیب صاحب اور پاکستان سے احمد ہمدانی مرحوم، ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تائید، احفاظ الرحمن مرحوم کی ترتیب اور غلام محی الدین صاحب کی مدد سے "کلیات شکیب جلالی" 2004 ع میں "سنگ میل پبلی کیشن" لاہور کے زیر اہتمام ان کے اکلوتے بیٹے اقدس رضوی نے شائع کی جس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ بھارت میں کلیات شکیب فرید بک ڈپو نئی دھلی سے شائع ہوئی۔
شکیب جلالی کہتے تھے "شاعری کسبی عمل نہیں بلکہ وہبی واردات کا نام ہے"۔ ان کے اس مقولے کو سامنے رکھتے ہوئے شکیب کی کلیات کو ان کی بیاضوں میں لکھے ہوئے ماہ و سال کے اعتبار سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تحقیق کرنے والوں کے لیے شکیب کی شاعری کو ارتقائی منازل کے تناظر میں پیش کیا جاسکے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets