aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محی الدین قادری زور 1904ء میں حیدر آباد کے ایک محلہ شاہ گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر غلام محمد شاہ قادری الارفاعی تھا۔ چنانچہ ان کا سلسلہ نسب سید احمد رفاعی تک پہنچتا ہے۔ ان کے اسلاف تغلق کے عہد میں دکن آئے اور یہاں کے ایک علاقہ قندھار میں بس گئے۔ خاندانی سلسلہ رشدوہدایت کا تھا چنانچہ ان کے والد محمد شاہ قادرالارفاعی ایسے ہی دینی کاموں میں منہمک رہے۔ زور کی تعلیم پہلے مدرسہ دارالعلوم میں ہوئی۔ پھر سٹی ہائی اسکول اور عثمانیہ کالج میں مزید تعلیم حاصل کی۔ 1925ء میں بی اے اور 1927ء میں ایم اے ہوئے۔ چنانچہ انہیں وظیفہ بھی ملا۔ پھر وہ 1927ء میں لندن چلے گئے۔ لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر 1930ء میں پیرس گئے اور صوتیات پر تحقیقی کام کیا، نیز ڈگری حاصل کی۔ وہ جینوا اور روم بھی گئے۔ پھر حیدرآباد آگئے۔ اس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے ’’ادارہ ادبیات اردو‘‘ قائم کیا۔ سیدہ جعفر لکھتی ہیں کہ 1950ء میں دارالعلوم اور چاور گھاٹ کالج کا انضمام عمل میں آیا اور یہاں بحیثیت پرنسپل ان کا تقرر کیا گیا۔ اس کالج سے ڈاکٹر زور 1960 ء میں سبکدوش ہوئے۔ موصوف نے ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا۔ ساہتیہ اکادمی کے رکن بھی رہے تھے۔ رسالہ ’’آج کل‘‘ سے ان کی وابستگی بھی تھی۔ پھر کشمیر یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو اور ڈین ہوئے۔
ڈاکٹر زور کی کئی حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت تو ماہرلسانیات کی ہے اور دوسری محقق کی۔ انہوں نے جو بھی کام کیا ہے وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دکنی ادبیات کو سامنے لانے اور وقیع بنانے میں ان کا زبردست رول رہا ہے اور یہ سچ ہے کہ انہوں نے جس طرح دکنی ادب کے ابتدائی مرحلے کی بنیاد ڈالی وہ آج واضح اور وسیع اردو ادبی اسکول کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق سے اردو تاریخ میں وسعت پیدا کی اور دکنیات کے بعض نادر نمونے سامنے لائے۔ ڈاکٹر زور کا کمال ہے کہ انہوں نے دکنی لسانیات کو اہم مقام دلانے میں ناقابل فراموش کام انجام دیا۔ گویا انہوں نے دکنی زبان وادب کی بازیافت کی۔ ان کی پہلی تصنیف ’’اردوشہ پارے‘‘ ان کے اس رجحان کا پتہ دیتی ہے۔ ’’تذکرہ گلزار ابراہیم‘‘ اور ’’تذکرہ گلشن ہند‘‘ ان کی مساعی سے علیگڑھ سے شائع ہوا۔ عہد عثمانی میں اردو کی ترقی پر ایک کتاب قلمبند کی۔ دکنی ادب کی تاریخ پر ایک مختصر مگر اہم کتاب لکھی، جو آج بھی دکنی ادب کی تفہیم میں معاون ہے۔ حیدرآباد کے نامور شعرا کو سامنےلانے میں ان کی سعی ناقابل فراموش ہے۔ ڈاکٹر زور نے ’’مرقع سخن‘‘ کی جلد دوم کی تدوین کی۔ کلیات محمد قلی قطب شاہ کا طویل مقدمہ بھی قلمبند کیا۔ حیات میرومومن بھی ان کی قابل لحاظ کتاب ہے۔ داستان ادب حیدرآباد کے تین سوسالہ اردو فارسی اور عربی ادب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کی دوسری کتابوں میں ’’فرخندہ بے نیاز‘‘، ’’حیدرآباد تذکرہ مخطوطات‘‘ (متعدد جلدیں) ’’معانی سخن‘‘ وغیرہ یادگار ہیں۔ کچھ تحریریں تنقیدی نوعیت کی بھی ہیں۔ آج ان کی تحقیقات پر نئی تحقیق سامنے آرہی ہے۔ ظاہر ہے جہاں جہاں زور سے غلطیاں سرزد ہوئی تھیں وہ بھی سامنے لائی جارہی ہیں۔ سیدہ جعفر نے بھی کلیات قلی قطب شاہ میں ان کی بعض رایوں سے اختلاف کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے محققین بھی جگہ جگہ اختلافات کی نوعیت کو ابھارتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام امور کے باوجود زور کا قد کم نہیں کیا جاسکتا، نہ تو محققین کی ایسی کاوش ہے۔ زور نے جو بنیادی کام کیا ہے وہ آج بھی مشعل راہ ہے۔ نئی تحقیقات ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر رواں دواں ہے جن سے نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں۔ سیدہ جعفر نے ان کی وفات کی تفصیل یوں درج کی ہے:۔
’’حکومت ہند کی طرف سے ڈاکٹر زور ساہتیہ اکادمی کے رکن نامزد کئے گئے تھے اور رسالہ ’آج کل‘ سے بھی وابستہ تھے۔ کشمیر یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو اور ڈین کی حیثیت سے ڈاکٹر زور کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ 23؍ستمبر 1962 ء کو ان کے قلب پر حملہ ہوا تھا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ کشمیر کے ماہر ڈاکٹروں نے علاج کیا لیکن بے سود۔ 24؍ستمبر 1962ء کی رات انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹر زور نے خانقاہ عنایت الٰہی میں جو حیدرآباد کے محلے پرانا پل میں واقع ہے، اپنے لے قبر تیار کروالی تھی لیکن کشمیر میں پیوند خاک ہوئے اور:
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
دوسرے دن ان کے سانحہ رحلت کی خبر سنتے ہی ریاست کے کئی وزرا اور سربرآوردہ شخصیتیں ان کی کوٹھی پر تعزیت کے لئے جمع ہوگئیں۔ دن کے بارہ بجے ان کی میت اٹھائی گئی۔ تجہیزوتکفین کا انتظام ڈپٹی رجسٹرار کشمیر یونیورسٹی نے کیا تھا۔ دوپہر کے وقت دکن کی اس مایہ ناز ہستی کو کشمیر میں سپردخاک کیا گیا اور محمد قلی قطب شاہ سے لے کر آصف سابع میر عثمان علی خاں تک کے حیدرآباد کا ایک پرستار اور اردو کا ایک مجاہد وادی کشمیر میں ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔‘‘
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets