Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : قلی قطب شاہ

ایڈیٹر : جاوید وششٹ

اشاعت : 001

ناشر : بک سروس، دہلی

سن اشاعت : 1971

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : انتخاب

صفحات : 183

معاون : انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

روپ رس
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

دکن میں سلطنت گولکنڈہ کے پانچویں فرماں روا محمد قلی قطب شاہ کا طویل پرامن اور خوش حالی کا وہ دور تھا جس میں قطب شاہی خاندان نے اپنے عروج کا زمانہ دیکھا۔ محمد قلی ابھی 15 برس ہی کے تھے کہ ان کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا گیا۔ یہی بادشاہ حیدرآباد جیسے خوبصورت شہر کا بانی ہے۔ شہر کا نقشہ پیشوائے سلطنت میر محمد مومن نے’ جو ایک بہترین آرکیٹکٹ بھی تھے‘ تیار کیا تھا۔ محمد قلی نے ازراہ عقیدت اس نئے شہر کا نام حضرت علیؓ کے نام پر حیدرآباد رکھا۔ بعض کتب میں جو روایتیں اس شہر کو آباد کرنے کے متعلق درج ہیں وہ محض ایک افسانہ ہیں اور ان کے اسناد دستیاب نہیں ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ ایک انسانیت دوست اور منصف مزاج حکمراں تھے۔ اس کی عظیم تعمیرات اور منصوبہ بند ترقی بہت پسند تھی۔ وہ ایک صاحب قلم اور علم دوست شاعرتھے۔ انہوں نے عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ مقامی زبان تلنگی کی ترقی کا بھی پورا خیال رکھا، وہ خود تلنگی میں شاعری کرتے تھے۔ تہذیب و ثقافت کو ترقی دینے کے لئے مقامی رواج کے مطابق تہواروں اور تقریبات میں حصہ لیا کرتے تھے۔ مقامی رسم و رواج اور رنگ کو فروغ دینے کے لئے اور ملی جلی تہذیب کو ترقی دینے کے لئے انہوں نے دکنی زبان میں شاعری شروع کی اور پورا ایک دیوان مرتب کیا۔ یہ دیوان حمد، منقبت، غزل، نظم اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ قطب شاہی عہد کے شعراء میں محمد قلی قطب شاہ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر محمد قلی کی شاعری اردو ادبیات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسی شاعری میں جو اس سے پہلے صرف مذہبی جذبات کے اظہار اور تسکین کے لئے استعمال ہوتی تھی، پہلی اور منفرد آواز محمد قلی کی تھی جس نے ذاتی تجربات اور واردات قلبی کو اس میں بیباکانہ طریقہ سے شامل کیا۔ اس نے عشق و محبت، فطری جذبات اور اس کی سماجی زندگی کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے اور کئی نظمیں پھولوں، پھلوں، سبزیوں، باغات اور مقبول عام رسومات اور تہواروں پر مشتمل ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس کا کلام ایک خوش باش بادشاہ کا کلام ہے۔ جو خود ان تمام باتوں میں بلا روک ٹوک حصہ لیا کرتا تھا۔ اس نے مذہبی عقیدت مندانہ شاعری بھی کی ہے۔ نوحے اور مراثی بھی دیوان میں موجود ہیں۔ یہ تمام شاعری دکنی زبان میں ہے۔

دکنی زبان کے بارے میں یہ کہنا کافی ہے کہ 1525ءمیں بہمنی سلطنت کے پانچ حصوں میں ٹوٹ جانے کے بعد ان میں سے دو سلطنتوں گول کنڈہ اور بیجا پور میں تقریباً ڈھائی صدی تک دکنی زبان کو ترقی دی جاتی رہی اور وہ ایک علاقائی اور قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کی جانے لگی۔ یہ زبان ایسے سماجی اور سیاسی انقلابات کا نتیجہ تھی جو شمالی اور جنوبی ہند کے درمیان واقع ہوئے تھے اور ان میں آبادی کے بہت بڑے اور بااثر حصے شمالی ہند میں جنوب منتقل ہوئے تھے۔ نقل آبادی کا پہلا واقعہ 1294ء میں اس وقت پیش آیا جب علاؤالدین خلجی نے مہاراشٹرا، آندھرا اور کرناٹک کو اپنی عملداری میں شامل کر لیا۔ دوسری بار جب 1327ء میں متلون مزاج محمد بن تغلق نے اپنا دارالسلطنت دلّی سے دولت آباد منتقل کیا۔ عوام کے اس عظیم اختلاط اور نوآبادکاری کی وجہ سے دکنی اردو میں بہت کچھ الفاظ اور جملوں کی نحوی بندش پنجابی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی زبانوں، مراٹھی، تلنگی الفاظ کا بھی اردو میں استعمال ہوا ہے۔ یہ مختلف الاصل ہمہ اقسام کے الفاظ اور ان کی بدلی ہوئی شکلیں دکنی میں شامل ہیں۔ اس وقت دکنی زبان جو ہمارے سامنے ہے وہ بادی النظر میں کوئی کشش نہیں رکھتی کیوں کہ اس کے تقریباً اسّی فیصد الفاظ متروک ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ ایک اجنبی زبان ہے۔ اردو ادب کے طالب علم کو دکنی زبان اسی طرح سیکھنی پڑتی ہے جس طرح ایک اجنبی زبان سیکھی جاتی ہے۔ مگر چوں کہ یہی اردو کی اصل ہے اس لئے اس سے واقفیت بھی ضروری ہے اس میں جو فکروخیال کی بلندیاں ہیں وہ اور کہیں نہ مل سکیں گی۔

ذیل میں ہم محمد قلی کی ایک نظم ’’آغاز باراں‘‘ (مرگسراکارتی) کا مفہوم نثری ترتیب میں موجودہ اردو میں پیش کر رہے ہیں۔ موسم برسات کے پہلے دن کو’’مِرَگ‘‘ کہتے ہیں۔

’’آسمان کے فرشتوں نے برسات کے موسم کو دعوت دی اور اس سے مل کر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے زمین پر سمندر سے چنے گئے موتیوں کی بارش کر دی جن سے آنگن کے آنگن بھر گئے۔ زمین نے اپنے سر پر موتیوں کی دستار باندھی اور بلور کی پوشاک زیب تک کی۔ ہر طرف سرخ مخملی بیر بہوٹیاں نکل آئیں۔ ہرے بھرے جنگلوں میں مور ناچنے لگے اور باغوں میں رنگ برنگی چڑیاں مستی سے چہچہانے لگیں۔ سبز سبز صحراؤں میں جو سرخ سرخ پھول ہیں وہ دراصل زمرد کے پیالوں میں شبنم کے روغن سے جلنے والے چراغ ہیں۔ موسم کی تازگی محسوس کر کے خوبصورت دوشیزاؤں نے بھڑکیلے لباس زیب تن کئے اور وہ اپنی مستانہ چال سے چاروں طرف جادوجگاتی چلی گئیں۔ موسم کے لطف میں ڈوب کر حسین لڑکیوں نے بادۂ ناب کی مستیوں میں خود کو غرق کر لیا۔ چنبیلی کے پھولوں پر سیاہ بھونرے’’ملہار‘‘ گانے لگے یہ سیاہ بھونرے ایسے ہیں جیسے چنبیلی جیسے رخساروں پر سیاہ تل ہوں۔ ان حسینوں کے سر سے پیر تک کے خوبصورت لباس اور ان کے پائل کی جھنکار مجھے ماہی بے آب کی طرح تڑپا رہی ہے۔‘‘

اصل نظم دیوان قلی قطب شاہ میں ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے:

مرگ مہینے کوں ملا لے ملکاں مل گکناں میں
سمد موتیوں کے جو برسائے سو بھر دیئے انگناں میں

نثر میں بیان کئے گئے مفہوم ہی سے آپ محمد قلی کی تخیئل کی وسعت اور خیال کی ندرت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ان کی غزلوں کے کچھ اشعار یہ ہیں:

پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اک تل جیا جائے نا

(محبوب کے بغیر ایک جام بھی نہیں پیا جاسکتا اور محبوب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں جیا جاسکتا)

مو نظر سامنے نہیں یار
نین پانی میں تیرتا دلدار

(میری نظر کے سامنے محبوب نہیں ہے۔ میرے آنسوؤں کے پانی میں تیرتا ہے)

ایسا پلا شراب کہ سب دل تے جائے دھو
وہ نقش کا رقوم کرے میرا دل مدام

(ایسی شراب پلا کہ دل سے سب کچھ دھل جائے اور دل بس ہمیشہ دو نقش لکھتا رہے: تمہارا اور میرا نام)

محمد قلی نے ایک مناجات لکھی تھی جس میں ایک شعر یہ بھی ہے۔

مرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جیوں تو دریا میں من یا سمیع

(اے دعاؤں کے سننے والے! میرے شہر کو لوگوں سے آباد کر جیسے تو دریا میں مچھلیوں کو زندہ رکھتا ہے)

چوں کہ یہ دعا صدق دل سے مانگی گئی تھی اس لیے اس کو شرف قبولیت عطا ہوا۔ جو لوگ حیدرآباد سے باہر چلے گئے ہیں وہ اپنے وطن کے فراق میں جل بن مچھلی کی طرح تڑپتے ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ کی ساری شاعری حسیاتی لذات سے معمور ہے۔ محبوب کے حسن کے وہ تمام جو جمالیات کے اجزا ہیں اس نے لمسی احساسات کے ساتھ بیان کئے ہیں۔

ایسے شوخ وشنگ، حوصلہ مند کثیر الاشغال اور ہردلعزیز بادشاہ نے 1612ء میں دنیا کا باغ چھوڑ کر جنت بسائی۔ اس وقت اس کی عمر صرف 48 سال تھی۔ 32 سالہ دور حکومت میں بے شمار یادیں اور یادگاریں چھوڑیں ہیں۔ یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے کلیات میں نظمیں، غزلیات، ریختی، قصائد، رباعیات اور مرثیہ نوحے شامل ہیں۔ اردو معانی کی فرہنگ کے ساتھ اس کے دیوان کو پروفیسر سیدہ جعفر نے مرتب کیا اور یوپی اردو اکادمی نے 1989ء میں شائع کیا ہے۔

محمد قلی قطب شاہ کی ایک آئیل کلر میں بنائی ہوئی تصویر سالار جنگ میوزیم لائبریری میں موجود ہے یہی تصویر جناب علی رضا کی انگریزی کتاب’’حیدرآباد 400 سال‘‘ میں بھی طبع ہوئی ہے۔ میں نے اسی کتاب کی تصویر سے پہلے پروفائل بنایا پھر اس کی مدد سے چہرہ سامنے بنا کر پورٹریٹ کی شکل دی ہے۔ پس منظر میں داہنی طرف چارمینار کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ چارمینار جو محمد قلی اور حیدرآباد کی شوکت اور عظمت کو ظاہر کرنے والی علامت ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے