aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
امجدحیدر آبادی نے اپنی پہچان اردو دنیا میں بحیثیت رباعی گو کے بنائی ،ان کے کلام کی انفرادیت کی وجہ سے ان کو سر مد ثانی اور شنہشاہِ رباعیات کے خطابات سے نوازا گیا۔ امجد کی رباعیات قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتی ہیں۔ امجد نے خدائی احکام اور اللہ کے رسول کی سیرت وکردار کو اپنی رباعیات میں پیش کیا ہے ان کی فکر،اسلامی فکر تھی،ان کی شاعری میں درد،تڑپ اورایک پیغام نظر آتا ہے۔ امجد کی شاعری مقصدیت پر مبنی شاعری ہے۔ امجد کی زبان عام فہم اور فکرپختہ ہے۔ ان کے کلام میں اخلاقی میلانات پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں صالح اقدار کو بیان کیا ہے وہ ایک تعمیر ادب اور صالح ادب کے نقیب ہیں ،انہوں نے شاعری وقت گزاری یا تفریح کیلئے نہیں کی بلکہ انسانیت کو اس کابھولا ہوا سبق یا دلایا ہے۔ ان کی یہ رباعیاں دیکھیں جس میں بڑی سلیقگی کے ساتھ مندرجہ بالا چیزوں کا تذکرہ کیاگیا ہے۔ ان کے شعری سرمایہ میں رباعیات امجد کے نام سے کئی حصے شائع ہوئے۔ زیر نظر کتاب حصہ سوم ہے۔
امجد حیدر آبادی کا نام سید احمد حسین تھا ۔ امجد تخلص کرتے تھے ۔ ان کے والد صوفی سید رحیم علی بڑے خدا رسیدہ بزرگ تھے ۔ ان کا انتقال امجد کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا ۔ مکتب کی ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ نظامیہ حیدر آباد میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ۔ عربی فارسی زبانوں میں مہارت حاصل کی ۔ امجد نے معاشی ضرورتوں کے تحت پہلے معلم کی حیثیت سے دارالعلوم اسکول میں ملازمت اختیار کی بعد میں ریاست حیدر آباد کے محکمہ محاسبی میں منتظم مامور ہوئے ۔ ۱۹۰۸ میں موسی ندی کے سیلاب میں ان کی والدہ بیوی بچے نذر اجل ہوئے ۔ یہ حادثہ امجد حیدرآبادی کیلئے بہت جاں گسل ثابت ہوا ۔
امجد حیدر آبادی کی شہرت کی بنیاد ان کی رباعیاں ہیں ۔ بقول فرمان فتحپوری ’’ امجد اول و آخر رباعی گو شاعر ہیں ‘‘ امجد نے رباعی صنف میں کثرت سے طبع آزمائی کی اور اس صنف کے وقار کو بلند کیا ۔ امجد کی رباعیوں کے موضوعات اخلاقی ، روحانی اور پند ونصائح پر مشتمل ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets