aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مخمور سعیدی کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش ایک انتہائی متمول اور آسودہ حال گھرانے میں ہوئی تھی لیکن مخمور کے زمانے تک حالات بدل چکے تھے۔ مخمور کو انہیں حالات میں خود کو سنبھالنا پڑا۔ ان تمام صعوبتوں کے باوجود انہوں نے خود کو گم نہیں ہونے دیا بلکہ دوسرے انسانوں کے لیے بہتر دنیا کی تعمیر میں وہ اپنا کردار نبھاتے رہے۔ یہ بالکل وہی کام تھا جو ایک حساس اور با شعور فنکار کرتا ہے۔ انہوں نے زندگی کی تلخ سے تلخ حقائق کا سامنا کیا، نا انصافی کے خلاف احتجاج کیا لیکن ان کا لہجہ زیادہ تر ترقی پسندوں کی طرح تیز اور تند نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کانوں کو ناگوار گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بقول خلیق انجم خواب اور حقیقت کے اس تصادم کی آئینہ دار ہے جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کے وجود میں آیا ہے۔ ان کے شاعرانہ احساس کی بنیاد خلوص، آگہی، جستجو، آرزو اور درد مندی پر ہے۔
نام سلطان محمد خاں اور تخلص مخمور ہے۔۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کو ٹونک(راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔اسسٹنٹ سیکریٹری ، اردو اکادمی، نئی دہلی کے عہدے پر فائز رہے۔ بسمل سعیدی سے تلمذ حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’گفتنی‘‘، ’’سیہ برسفید‘‘، ’’آواز کا جسم‘‘، ’’سب رنگ‘‘، ’’واحد متکلم‘‘، ’’آتے جاتے لمحوں کی صدا‘‘، ’’بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا‘‘(شعری مجموعے)، ’’تجدید جنوں‘‘(منظوم تراجم)، ’’ساحر لدھیانوی۔ایک مطالعہ‘‘(مرتبہ)، ’’قصہ جدیدوقدیم‘‘(ایک ادبی مباحثہ)، ’’عمر گذشتہ کا حساب ‘‘(جلد اول ودوم)، ’’شیرازہ‘‘(ہم عصر شاعری کا انتخاب)۔ ان کے مجموعی خدمات پر راجستھان اور دہلی اردو اکادمی نے انعامات دیے۔ مخمور سعیدی کو’ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘ ان کی کتاب’’راستہ اور میں‘‘ پر بھی دیا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:336
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets