aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی زندگی میں متعدد سفر کسی خاص مقصد اور نیت سے کیے تھے انھوں نے اپنے ان تمام اسفار کی روداد بڑے دل چسپ انداز میں قلم بند کی ہے۔ان کے سفر نامے کافی معلومات افزا بھی ہوتے ہیں اور ادبی نقطہ نظر سے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔زیر نظر کتاب"سفرحجاز"1929 میں مولانا نے حج کا سفر کیا تھا ۔اس کی دل کش روداد ہے۔ اولا یہ سفر نامہ ا ن کے ہفتہ وار رسالہ"سچ" میں قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔
مولانا عبدالماجد دریابادی ہمارے عہد کے نامور ادیب اور صحافی گزرے ہیں فلسفہ ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ انہوں نے فلسفے سے متعلق کتابوں کے ترجمے بھی کیے اور خود بھی کتابیں لکھیں۔ ان کے اسلوب نگارش کو بھی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا گیا۔
عبدالماجد 1892ء میں دریاباد ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم ہوئی۔ یہیں ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اردو فارسی اور عربی گھر پر ہی سیکھی۔ پھر سیتا پور کے ایک اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لکھنؤ گئے اور بی۔ اے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے والڈ ڈپٹی کلکٹر تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ماحول سازگار تھا۔ طالب علمی کے ابتدائی زمانے سے ہی مطالعے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ کتب بینی میں ایسا دل لگتا تھا کہ دوستوں سے ملنا جلنا بھی ناگوار ہوتا تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی مضمون بھی لکھنے لگے تھے۔ یہ مضامین اس زمانے کے اچھے رسالوں میں چھپ کر داد پاتے تھے اور مصنف کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔
باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد معاش کی فکر دامن گیر ہوئی۔ پہلے تو مضمون نگاری سے روزی کمانی چاہی مگر اس میں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پھر ملازمت کی طرف متوجہ ہوئے مگر کوئی ملازمت دیر پا ثابت نہیں ہوئی۔ آخر کار حیدر آباد چلے گئے۔ وہیں اپنی مشہور کتاب ’’فلسفۂ جذبات لکھ کر علمی حلقے میں شہرت و ناموری حاصل کی۔ اس وقت تک اردو میں فلسفے کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا تھا۔ مولانا نے فلسفے کے موضوع پر خود بھی کتابیں لکھیں اور بعض اہم کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔ مکالمات برکلے ان کا اہم کارنامہ ہے۔
مولانا کا خاص میدان صحافت ہے۔ انہوں نے متعدد اردو اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ان میں ہمدم، ہمدرد، حقیقت قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ’’صدق‘‘ کے نام سے اپنا اخبار بھی جاری کیا۔
مولانا کی تصانیف و تراجم کا مطالعہ کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ زبان پر انہیں پوری دسترس حاصل ہے۔ ترجمہ کرتے ہیں تو اس طرح کہ اس پر طبع زاد تصنیف کا گمان ہوتا ہے۔ یہی ترجمے کی خوبی ہے۔ ان کی زبان سادہ، سلیس اور رواں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود پوری کوشش کرتے ہیں کہ زبان کا حسن برقراررہے۔ کہیں بولی ٹھولی کی زبان استعمال کرتے ہیں، کہیں درمیان عبارت میں خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب دیتے جاتے ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے ذخیرۂ الفاظ میں ردوبدل ہوتا جاتا ہے۔ فلسفے سے خاص شغف کے باعث زیادہ مربوط و مدلل ہوتی ہے۔
فلسفۂ جذبات، فلسفۂ اجتماع، مکالمات برکلے ان سے یادگار ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets