aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دارا شکوہ (1615–1659) مغل بادشاہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا اور نامزد ولی عہد تھا۔ وہ اپنے متجسس ذہن، صوفیانہ عقیدت، اور مذہب کے بارے میں وسیع النظری کے سبب دربار میں بے حد مقبول تھا۔ اس نے اپنے روحانی مرشد، قادری سلسلے کے بزرگ، کے احترام میں قلمی نام "قادری" اختیار کیا، اور فارسی زبان میں ایک ضخیم دیوان تحریر کیا، جس میں غزلیں، رباعیات، اور قصائد شامل ہیں۔
وحدت ادیان کو ثابت کرنے کے عزم میں، دارا شکوہ نے پچاس اوپنشادوں کا فارسی میں ترجمہ "سرِّ اکبر" کے عنوان سے کیا، اور "مجمع البحرین" نامی ایک انقلابی رسالہ تحریر کیا، جس میں صوفیانہ اور ویدانتی اصطلاحات کو ایک ساتھ پیش کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں "سفینة الاولیاء"، "رسالہ حق نما"، اور "اکسیر اعظم" شامل ہیں، جو سب اُس کی اسلامی تصوف اور ہندو فلسفے کو قریب لانے کی جستجو کی عکاس ہیں۔
دارا شکوہ کے آزاد خیال نظریات نے اسے مقبول مگر متنازع شخصیت بنا دیا۔ 1657 سے 1659 تک کے جنگِ جانشینی میں وہ شکست کھا گیا، اُس پر الحاد کا مقدمہ چلا، اور اورنگزیب کے حکم پر اسے سزائے موت دی گئی۔ تاہم، اس کی تصانیف آج بھی جنوبی ایشیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ابتدائی اور پائیدار کوششوں میں شمار کی جاتی ہیں۔