جلیل قدوائی
نام جلیل احمد، جلیل تخلص۔ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴ء کو اناؤ(اودھ) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۶ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ ۱۹۳۳ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کی ڈگری اول درجے میں حاصل کی اور علی گڑھ میں شعبۂ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے۔احسن مارہروی سے تلمذ حاصل تھا۔ علی گڑھ کے زمانے کا سارا کلام ’’نقش ونگار‘‘ کے نام سے ۱۹۴۰ء میں کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ جلیل قدوائی نے حسرت موہانی کے کلام کا انتخاب بھی کیا ہے۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔ وزارت اطلاعات ونشریات ، پاکستان گورنمنٹ میں اعلا عہدوں پر فائز رہنے کے بعد ۱۹۵۹ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ یکم فروری ۱۹۹۶ء کو اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں: ’نوائے سینہ تاب‘، ’خاکستر پروانہ‘، ’قطرات شبنم‘(شعری مجموعے)، ’سیرگل‘، ’اصنام خیالی‘(افسانوں کے مجموعے)، ’دیوان میر محمدی بیدار‘ (مرتب)، ’تذکرے اور تبصرے‘ ، ’انتخاب شعرائے بدنام‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:376