aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
وہ ادب جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے اور جس کی کوئی تحریری شکل نہیں۔ یہ ادب عوام کے دلوں میں پروان چڑھتاہے، عام اور بڑا طبقہ اس سے محظوظ ہوتا ہے، اسے عوامی یا لوک ادب کہتے ہیں۔ لوک ادب کی روایت انسان کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ جب کسی ماں نے پہلی بار اپنے بچے کو سلانے کے لیے کچھ گا کر سنا یا جب کسی نے دل بہلانے اور لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی قصہ گڑھا تو لوک ادب کا آغاز ہوا۔ قدیم دیؤوں اور پریوں کی داستانیں، قصے، حکایتیں، پنج تنتر کی کہانیاں، موسموں کے گیت، لوریاں، شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں گائے جانے والے گیت جو سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں جو باقاعدہ تحریری شکل میں نہیں ملتے، جن کا کوئی ایک فرد خالق نہیں، بلکہ پورے معاشرے نے جنہیں جنم دیا، سب لوک یا عوامی ادب کی مختلف اصناف ہیں۔ زیر نظر کتاب "سرائیکی لوک گیت" ڈاکٹر مہر عبد الحق کا کیا ہوا اردو ترجمہ ہے جس ترجمہ میں لوریاں ، بچوں کے کھیل کے بول اور گیت، فصلوں کے گیت، جگراتے کے گیت، سہرے، میل کے گیت اور جھمریں، ماہئے اور ڈھولے، زائرین کے گیت اور مزاحیہ گیت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لوک گیت در اصل سرائیکی زبان میں ہیں۔ جن کو ڈاکٹر مہر عبد الحق سومرہ نے اردو میں ترجمہ کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets