aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیرنظر کتاب مولانا جلال الدین رُومی کے مفصل سوانح عمری ہے جس میں مثنوی شریف اور دیگر تصنیفات پر تفصیل سے تقریظ اور تبصرہ لکھا گیا ہے،یہ کتاب علامہ شبلی کا ایک بڑا علمی کارنامہ اور اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔اس کا ہرصفحہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فاضل مصنف نے "مثنوی معنوی"کا بڑی دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور اس کےقیمتی جواہر ریزوں کے چننے کے ہنر سے خوب واقف تھے۔ اس کے متعلق شبلی کا کہنایہ ہے کہ ان کے لیے رومی کی زندگی کے جو واقعات اور پہلو باعثِ کشش تھے ۔ مولانا روم کو ایک مافوق البشر کی حیثیت یہی سب واقعات کے دائرہ میں کرامات کرتے ہوئے دکھایا ہے ۔ اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ مولانا روم کو حکیم کی حیثیت سے اور مثنوی کو عقائد اور کلام کی حیثیت سے پیش کیا ہے"سوانح مولانا روم"دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں نہایت اختصار کے ساتھ مولانا روم کے حالات زندگی بیان کیے گئے جبکہ دوسرے حصے میں مولانا کے کلام اور خاص کر مثنوی مثنوی پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
’’اردو ادب کی دیو پیکر ہستیوں میں شبلی ہی وہ خود دار ہستی ہے، جس نے مغربی علوم و فنون کی تیز و تند آندھی میں بھی مشرقی علوم و فنون کے دیئے کو نہ صرف بجھنے نہیں دیا بلکہ اپنی تلاش و جستجو،تحقیق و تدقیق کے روغن سے اس کی لَو کو بڑھاتی رہی یہاں تک کہ ’’چراغ خانہ‘‘ ’’شمع انجمن‘‘ کے دوش بدوش کھڑا ہونے کے لائق ہو گیا۔‘‘
آفتاب احمد صدیقی
شبلی نعمانی ان لوگوں میں ہیں، جو سرسیّد احمد خاں کے اثر اور فیضِ صحبت کی بدولت مولویت کے محدود اور تنگ دائرہ سے نکل کر ادب کے وسیع میدان میں آئے۔ انھوں نے اردو زبان میں اسلامی تاریخ کا صحیح ذوق پھیلایا۔ تاریخ میں انھوں نے اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیتوں کے حالات زندگی قلم بند کرنے کا اک سلسلہ شروع کیا، جس میں متعدد نامور اسلاف آگئے۔ ان کی سب سے مشہور و مقبول کتاب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی سوانح ’’الفاروق‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی آخری تصنیف ’’سیرت النبی‘‘ ان کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی تھی۔ اسے ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے مکمل کر کے شائع کرایا۔ ان تصانیف کے علاوہ شبلی نے بے شمار تاریخی و تحقیقی مضامین لکھے، جس سے تاریخ دانی اورتاریخ نویسی کا عام شوق پیدا ہوا۔ شبلی شاعر اوراعلیٰ درجہ کے سخن شناس و نقّاد تھے۔ اور انھیں اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران شبلی نے پروفیسر آرنلڈ سے بھی فیض حاصل کیا اور ان کے توسط سے مغربی تہذیب اور اس کے معاشرتی آداب سے واقف ہوئے۔ شبلی نے اس تہذیب و معاشرت کے محاسن کا اعتراف کیا اور مشرقی تہذیب کے ساتھ اس کی آمیزش بھی کی۔ اس آمیزش نے قدامت پسندوں کو ان سے بدظن کر دیا حتی کہ انھیں ندوہ سے بھی نکلنا پڑا۔ وہ مغرب زدہ حلقوں میں بغیر کسی احساس کمتری کے شریک ہوتے تھے۔
شبلی نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی لیکن دونوں زبانوں کی شاعری کا مزاج مختلف ہے۔ شبلی کی فارسی شاعری میں گرما گرم عشقیہ مضامین ہیں۔ یہ شاعری عوام کی نظر سے کم ہی گزرتی ہے ۔ اردو میں انھوں نے عموماً قومی اور سیاسی قسم کی شاعری کی۔ ان کی فارسی شاعری کے بارے میں حالی نے کہا، ’’کوئی کیوں کر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے، جس نے سیرت نعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، غزلیں کاہے کو ہیں، شراب دو آتشہ ہے، جس کے نشہ میں خمار چشم ساقی بھی ملا ہوا ہے۔ غزلیات حافظ کا جو حصہ رندی اور بے باکی کے مضامین پر مشتمل ہے، ممکن ہے کہ اس کے الفاظ میں زیادہ دلربائی ہو مگر خیالات کے لحاظ سے یہ غزلیں بہت زیادہ گرم ہیں۔‘‘
شبلی 1857ء میں اعظم گڑھ کے نزدیک بندول میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ نسلاً راجپوت تھے۔ شبلی امام ابو حنیفہ سے مزاجی قربت رکھتے تھے، اسی لئے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے نعمانی لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد اعظم گڑھ کے نامور وکیل، بڑے زمینداراور نیل و شکر کے تاجر تھے۔ شبلی کو انھوں نے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علماء سے فارسی عربی حدیث فقہ اور دیگر اسلامی علوم حاصل کئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے کچھ دنوں قرق امین کے طور پر ملازمت کی پھر وکالت کا امتحان دیا، جس میں فیل ہو گئے، لیکن اگلے سال کامیاب ہوئے۔ کچھ دنوں مختلف مقامات پر ناکام وکالت کرنے کے بعد مولانا کوعلی گڑھ میں سر سید کے کالج میں عربی اور فارسی کے معلم کی نوکری مل گئی۔ یہیں سے شبلی کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ علی گڑھ کی ملازمت کے دوران ہی مولانا نے ترکی شام اور مصر کا سفر کیا ۔ ترکی میں سر سید کے رفیق اور عربی و فارسی کے اسکالر کے طور پر ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ عطیہ فیضی کے والد حسن آفندی کی سفارش پر، کہ وہ سلطان عبد الحمید کے دربار میں خاصا رسوخ رکھتے تھے، ان کو ’’تمغۂ مجیدیہ‘‘ سے نوازا گیا۔ واپسی پر انھوں نے المامون اور سیرت نعمان لکھیں۔ 1890ء میں شبلی نے ایک بار پھر ترکی، لبنان اور فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں کے کتب خانے دیکھے۔ اس سفر سے واپسی پر انھوں نے ’’الفاروق‘‘ لکھی۔ 1898ء میں سر سید کے انتقال کے بعد شبلی نے علی گڑھ چھوڑ دیا۔ اور اعظم گڑھ واپس آ کر اپنے قائم کردہ ’’نیشنل اسکول‘‘ (جو اب شبلی کالج ہے) کی ترقی میں مصروف ہو گئے۔ پھر وہ حیدراباد چلے گئے، جہاں کے اپنے چار سالہ قیام میں انھوں نے الغزالی، علم الکلام، الکلام، سوانح عمری مولانا روم، اور موازنۂ انیس و دبیر لکھیں۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ آ گئے جہاں انھوں نے ندوۃ العلماء کے تعلیمی معاملات سنبھالے۔ ندوہ کی مصروفیا ت کے درمیان ہی انھوں نے شعرالعجم لکھی۔1907 میں گھر میں بھری بندوق اچانک چل جانے سے وہ اپنا اک پیر گنوا بیٹھے اور لکڑی کے پیر کے ساتھ باقی زندگی گزاری۔ مولانا نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔ پہلی بیوی کا 1895 میں انتقال ہو گیا۔ 1900ء میں 43 سال کی عمر میں انھوں نے ایک کمسن لڑکی سے دوسری شادی کی، جس کا 1905ء میں انتقال ہو گیا۔ شبلی کا خواب تھا کہ بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے علمی تحقیق و اشاعت کا اک ادارہ ’’دار المصنفین‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے۔ انھوں نے اس کا انتظام پورا کر لیا تھا، لیکن ادارہ کا افتتاح ان کی موت کے بعد ہی ہو سکا۔ مولانا کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے ندوۃ میں ان کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ آخر ان کو اس ادارے سے، جس کی ترقی کے لئے انھوں نے بڑی محنت کی تھی، الگ ہونا پڑا اور وہ اعظم گڑھ آ کراسکول اور زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ یہاں آ کر ان کی صحت گرنے لگی اور 18 نومبر 1914ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ شبلی نعمانی اک فعّال اور محنتی آدمی تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے پوری محنت اور لگن سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ اپنی علمیت و شہرت کی بدولت ان کی رسائی اس وقت کی بہت سی ریاستوں کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں تک تھی، جن سے ان کو اپنے علمی وعملی منصوبوں کے لئے مدد ملتی رہتی تھی۔
شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو اپنی دولاجواب کتابوں’’شعرالعجم‘‘ اور’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ موازنہ میں شبلی نے فن مرثیہ نگاری کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ساتھ فصاحت، بلاغت، تشبیہ، استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح کی ہے ۔ شعر العجم میں انھوں نے شعر کی حقیقت و ماہیت، نیز لفظ و معنی کے رشتے کو سمجنے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں انھوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف کا محاکمہ کیا ہے۔ اس میں انھوں نے شاعری کے عناصر حقیقی، تاریخ و شعر کے فرق اور شاعری اور واقعہ نگاری کے فرق کو واضح کیا ہے۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی چیز سمجھتے تھے جس کی کوئی جامع و مانع تعریف وضع کرنا ممکن نہیں۔ وہ ادراک کے مقابلہ میں جذبہ و احساس کو شاعری کا جوہر حقیقی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جذبات کے بغیر شاعری ممکن نہیں، تاہم اس کا مطلب ہیجان یا ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ وہ ہراس چیز کو جو دل پر استعجاب، جوش یا کوئی اور جذبہ پیدا کرے شعر میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے نزدیک آسمان، ستارے، صبح کی ہوا، کلیوں کی مسکان، بلبل کے نغمے، دشت کی ویرانی اور چمن کی شادابی سب شعر میں شامل ہیں۔ اس طرح شبلی نے شعر کے حسّی اور جمالیاتی پہلو پر زور دیا۔ لفظ و معنی کی بحث میں ان کا جھکاؤ لفظ کی خوبصورتی اور اس کے مناسب استعمال کی طرف ہے۔ وہ لفظ کو جسم اور معنی کو اس کی روح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عمدہ معنی عمدہ الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آئیں و زیادہ پُراثر ہوں گے۔ شبلی نعمانی کی علمی خدمات کے اعتراف میں انگریز سرکار نے ان کو شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ ان کے قائم کردہ ادارے شبلی کالج اور دار المصنفین آج بھی علم و تحقیق کے کاموں میں مصروف ہیں۔اردو زبان شبلی کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets