aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
منشی نول کشور انیسویں صدی کے مایہ نازناشر، روزنامہ اودھ اخبار کے مدیر اور نثر نگار کی حیثیت سے پوری دنیائے ادب میں جانے جاتے ہیں۔ وہ ایسے خاندان سے وابستہ تھے کہ لوگ انہیں محض ایک زمیندار گھرانے کا چشم وچراغ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اپنی گرانمایہ علمی، ادبی اور صحافتی واشاعتی خدمات سے اردو زبان وادب کی تاریخ میں ایسا مقام حاصل کیا کہ آج تک دنیاحیرت زدہ ہے۔ 1858 ء میں، 22 سال کی عمر میں، انہوں نے 'نول کشور پریس اور کتاب ڈپو' قائم کیا تھا۔ اور بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی علوم وفنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں۔ ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کرسکتا۔ اردو زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں شعراءکے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور اس کی عام کتابیں سب اسی کوششوں کی ممنون ہیں۔ زیر نظر کتاب میں منشی نول کشور کی مکمل زندگی ، پرورش ،جوانی، شوق، تجارت اور وفات تک کی تمام سرگرمیوں کو سپرد قرطاس کیا گیا ہے ۔اس عظیم کام کو مشہور ادیب سید امیر حسن نورانی نے انجام دیا ہے۔ کتاب چھ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے ۔ان میں اودھ کا علمی اور تاریخی پس منظر نولکشور سے قبل، نولکشور کی تاریخی حیثیت ، مطبع کی ترقی و ارتقاء ، مطبع سے علماء کی دلچسپی ، فارسی کو فروغ دینے میں مطبع کا کردار، اودھ کے اخبارات اور حالات، ناموافق حالات کا مقابلہ اور دوسری ممتاز شخصیتوں سے روابط وغیرہ جیسے حساس اور اہم موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کے بیشتر صفحات پر فٹ نوٹ لگا ہوا ہے جس سے مفاہیم کے قریب ہونے میں آسانی ہو گئی ہے۔ کتاب کی ابتدا میں منشی نولکشور اور اس دور کی کچھ اہم شخصیتیں جیسے ڈاکٹر رنجیت کمار بھارگو، منشی بشن نراین بھارگو وغیرہ کی تصویریں جاذبیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ نیز نولکشور کے کارخانے ، ان کے دفتر اور مکان کا عکس ذہن کو ماضی کی سیر کراتا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free