aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر مطالعہ شاد عظیم آبادی کا ناول "صورۃ الخیال" ہے۔ یہ ناول "ولایتی کی آپ بیتی" کے نام سے معروف ہے۔ اس ناول کے تین حصوں کو الگ الگ نام " صورۃ الخیال، ہیئتہ المقال ،حلیتہ الکمال " دئیے گئے ہیں۔ یہ ناول انیسویں صدی کے اواخر میں مراہ العروس اور بنات النعش کے فورا بعد لکھا گیا ہے۔ یہ ناول ایک تعلیمی، اصلاحی اور اخلاقی ناول ہے۔ جیسا کہ شروعاتی دور کے ناولوں کے موضوعات ہوتے تھے۔ ناول کا اسلوب بیان صاف ،سادہ ،فطری اور خوشگوار ہے۔ ناول کی نثررواں، سلیس، فصیح اور بامحاورہ ہے۔ مکالمے پر اثر اور برجستہ ہیں۔ اس ناول کے شروع میں اختر احمد اورینوی کا بسیط مقدمہ ہے جو ناول کے موضوع اور شاد کی ناول نگاری پر بہتر روشنی ڈالتا ہے۔
نم آلودگیوں کا شاعر
''شاد کی اہمیت ادبی بھی ہے اور تاریخی بھی۔ تاریخی اس معنی میں کہ جب غزل کے اوپر حملے ہو رہے تھےاور چاند ماریاں ہو رہی تھیں اس زمانہ میں شاد غزل کے علم کو بلند کئے رہے۔ ادبی بات یہ ہوئی کہ کلاسیکی غزل کے کئی رنگوں کو اختیار کر کے انھیں سچّے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے۔''
شمس الرحمٰن فاروقی
شاد عظیم آبادی اردو کے اک بڑے اور اہم شاعر، دانشور، محقق، تاریخ داں اور اعلیٰ پایہ کے نثر نگار تھے۔ مشہور نقّاد کلیم الدین احمد نے انھیں اردو غزل کی تثلیث میں میرؔ اور غالبؔ کے بعد تیسرے شاعر کے طور پر شامل کیا۔ مجنوں گورکھپوری نے انھیں نم آلودگیوں کا شاعر کہا۔ علامہ اقبال بھی ان کی شاعری کے معترف و مدّاح تھے۔ ان کی شاعری اک حکیمانہ مزاج رکھتی ہے۔ طرز ادا اور اسلوب بہت سلجھا ہوا، سجا سجایا اور پُروقار ہے اور ان کے اشعار کی شیرینی، گھلاوٹ اور دلکشی لاجواب ہے۔ زندگی اور اس کی ناہمواریوں پر وہ گہری نگاہ ر کھتے ہیں۔ ان کے اشعار میں اک خاص طرح کی گرمی، سوز اور کسک ہے۔ ان کے کلام میں مسرت آفرینی کے ساتھ ساتھ بصیرت افروزی بھی نمایاں ہے۔ شاد عظیم آبادی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے ہنر کو کلاسیکیت کی اک نئی سطح پر اس طرح آزماتے ہیں کہ نہ تو انھیں سپاٹ اور بے رنگ ہونے سے ڈر لگتا ہے اور نہ وہ غزل کی تراش خراش، نفاست اور تغزّل کے عام تصور سے مرعوب ہوتے ہیں۔ شاد کی شاعری میں روایت شکنی کے نہیں بلکہ روایت میں توسیع کے نشانات ملتے ہیں اس لئے ان کی شاعری پر اک انفرادی شعور کی مہر ثبت ہے اور اسے روایت کے ہجوم میں الگ سے پہچانا جا سکتا ہے۔
شاد عظیم آبادی 1846ء میں عظیم آباد (پٹنہ) کے اک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید علی محمد تھا۔ ان کے والد سید تفضل حسین کا شمار پٹنہ کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی اور ادبی تھا۔ شاد بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے اور دس برس کی عمر میں ہی انھوں نے فارسی زبان و ادب پر خاصی دسترس حاصل کر لی تھی اور شعر بھی کہنے لگے تھے۔ ان کے والدین ان کی شاعری کے مخالف تھے اور ان کو عراق بھیج مذہبی تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن شاد ان سے چھپ چھپا کر شاعری کرتے رہے اور سید الطاف حسین فریاد کی شاگردی اختیار کر لی۔ مطالعہ کے بڑھے ہوئے شوق اور اس کے نتیجہ میں شب بیداری کی وجہ سے وہ ضعف معدہ اور اختلاج قلب کے مریض بن گئے لیکن معالجین کی تاکید کے باوجود انھوں نے اپنی روش نہیں بدلی جس کا اثر یہ ہوا کہ دائمی مریض بن کر رہ گئے۔ بطور شاعر شاد کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معتبر ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر سر عبد القادر سروری پٹنہ آئے اور ان کی ملاقات شاد سے ہوئی۔ وہ شاد کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور ان کا کلام اپنے رسالہ میں شائع کرنے لگے۔ شاد نے شاعری میں غزل کے علاوہ مرثیے، رباعیاں، قطعات، مخمس اور مسدس بھی لکھے۔ وہ اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے کئی ناول لکھے جن میں ان کا ناول ’’پیر علی‘‘ جو پہلی جنگ آزادی کے موضوع پر اردو کا پہلا ناول ہے، اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے کثیر تعداد میں مکتوبات بھی لکھے۔ ’’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘‘ ان کی خودنوشت سوانح حیات ہے۔ 1876ء میں پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو انھوں نے شاد سے بہار کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی۔ شاد نے تین جلدوں میں بہار کی تاریخ لکھی جس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی کتاب ’’نوائے وطن‘‘ پر بہار میں خاصہ طوفان کھڑا ہوا تھا۔ اس کتاب میں شاد نے عظیم آباد اور بہار کے دوسرے مقامات کے شرفاء کی زبان میں خرابیوں کی نشاندہی کی تھی۔ اس پر بہار کے اخبارات و رسائل میں ان پر خوب لے دے ہوئی۔ ان کے خلاف ایک پرچہ بھی نکالا گیا، رات کے اندھیرے میں لوگ جلوس کی شکل میں ان کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر ان کے خلاف نوحے پڑھتے۔ ان کے حامیوں نے بھی جوابا ’’اخبارعالم‘‘ نکالا جس میں ان کے مخالفین کو جواب دیئے جاتے۔ ان واقعات کے بعد وہ پٹنہ میں زیادہ ہردلعزیز نہیں رہ گئے تھے۔ بہرحال وہ سیاسی، ملّی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ وہ پٹنہ میونسپلٹی کے رکن اور میونسپل کمشنر بھی رہے۔ 1889ء میں انھیں آنریری مجسٹریٹ بھی نامزد کیا گیا۔ شاد نے زندگی کا بیشترحصہ ٹھاٹ باٹ سے گزارا۔ سفر کے دوران بھی آٹھ دس ملازم ان کے ساتھ ہوتے تھے لیکن زندگی کے آخری ایّام میں انھیں انگریز کا وظیفہ خوار ہونا پڑا۔ سرکار کی طرف سے ان کو گھر کی مرمت کی مدد میں ایک ہزار روپے، کتابوں کی اشاعت کے لئے نو سو روپے اور ذاتی اخراجات کے لئے سالانہ ایک ہزار روپے ملتے تھے۔ شاد کو صحافت سے بھی دلچسپی تھی۔ 1874ء میں انھوں نے اک ہفت روزہ ’’نسیم سحر‘‘ کے نام سے جاری کیا تھا جو سات برس تک نکلتا رہا۔ اس میں وہ اعزازی مدیر تھے۔ شاد نے ساری زندگی تصنیف و تالیف میں گزاری۔ ان کی بےشمار تصانیف میں سے صرف دس اشاعت پذیر ہو سکیں۔ انھوں نے مختلف اصناف اور موضوعات پر تقریباً ایک لاکھ شعر کہے اور کئی درجن نثری تصانیف مرتب کیں۔ ان کا خاصہ کلام تلف ہو گیا۔
شاد عظیم آبادی نے اردو غزل میں سچّے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ اک نئے رنگ و آہنگ کی تازگی و توانائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ اشاروں اشاروں میں وہ اپنے وقت کے حالات پر بھی تبصرہ کر جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں انسان کی خودغرضیوں اور گمراہیوں کا بھی بیان ہے۔ انھوں نے ساری عمر شعر و ادب کی خدمت میں گزار دی۔ اور وہ تاعمر بیماریوں سے لڑتے اور معاصرین کی مخالفتوں کو جھیلتے رہے۔ 8 جنوری 1927ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free