aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
30؍نومبر 1920ء کو ہردوئی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مطلوب الرحمن تھا جو انجنیر تھے۔ آبائی وطن دیوبند تھا، پوری تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی، فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنے لگے، ایک عرصے تک اس کام سے جڑے رہے، لیکن اس سے ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں، اس لئے شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس میں وہ مہارت حاصل کی کہ اچھے اچھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مولانا کے مشہور ماہنامہ "تجلی" کے اکثر سرورق خود مولانا نے بنائے ہیں۔ اس کے بعد مولانا پر وہ دور بھی آیا کہ ان کا قلم ممبئی کی گندی فلم نگری کی طرف مڑ گیا، مگر یہ دنیا مولانا کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی اور والد مرحوم نے یہ بھی کہہ دیا کہ فلم سے کمایا ہوا ایک پیسہ بھی میں نہیں لوں گا۔ اسی لئے جلد ہی مولانا دیوبند لوٹ گئے۔ ذریعۂ معاش کے طور پر ماہنامہ "تجلی" کا اجراء کیا۔ ماہنامہ "تجلی" کا اجراء 1949ء میں کیا گیا جو مولانا کی وفات تک یعنی 25 سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔ حالات و آزمائشوں کے باوجود اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم مدت میں خوب شہرت حاصل کی، منظر عام پر آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، اس کے سلسلہ مضامین کا اہل علم و ذوق شدت سے انتظار کرتے تھے۔
مولانا عامرؔ عثمانی شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں شہرت حاصل کر چکے تھے۔ مرض الموت میں جب انہیں ڈاکٹروں نے چلنے پھرنے سے منع کر دیا۔ سفر کی سخت ممانعت تھی۔ مگر شاید مولانا کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ ان کا آخری سفر ہے۔ پونے کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے مولانا نے پونے کا طویل سفر اختیار کیا۔ اور اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنانے کے دس منٹ بعد ہی 12؍اپریل 1975ء کو جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets