aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محمد احسن فاروقی کا یہ ناول" شام اودھ " آفاقی شہرت حاصل کرچکا ہے ۔ یہ ایک رومانی اور نیم تاریخی ناول ہے ۔ مصنف نے محدود ہی سہی لیکن قدیم تہذیب کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جس تہذیب کی نمائندگی کی گئی ہے اس میں گھریلو عورتیں اتنی فعال نہیں ہوتیں جتنی لونڈیاں اور کنیزیں۔ نواب کے سامنے ان کی بیویاں آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرتیں مگر یہ کنیزیں بےباک ہو کر بات کرتی ہیں۔ اس کنیز کا نام نوبہار ہے جو پورے ناول میں اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ ناول کا ہر کردار اس کے سامنے پھیکا پڑتا ہے۔ نواب صاحب کنیز کی محبت میں گرفتار ہیں اور دوسری طرف محل کے کسی دوسری جانب بھی محبت کی کہانی پروان چڑھ رہی ہے۔ ناول میں آخر تک سسپنس برقرار رہتا ہے۔ ہر کردار کو بحسن و خوبی نبھایا گیا ہے اور جس دور کی کہانی بیان کی جا رہی ہے ، اس دور کے ماحول کا پورا خیال رکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو بڑی شہرت ملی ۔
احسن فاروقی کی پیدائش 24نومبر 1913ء میں لکھؤ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد حسن خاں تھا انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1929ء میں لکھنؤ ہی سے میٹرک پاس کیا۔ کرشچن کالج سے ایف اے ہوئے اور بی اے 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے کیا۔ 1935ء میں انگریزی میں ایم اے ہوئے۔ اس کے بعد فلسفے میں بھی ایم اے پاس کیا۔ 1964ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری انگریزی میں حاصل کی۔ ڈاکٹر احسن فاروقی اردو فارسی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کے واقف کار سمجھے جاتے تھے۔ عربی میں بھی اچھی استعداد رکھتے تھے۔
احسن فاروقی 1956ء میں کراچی آگئے اور مختلف جامعات سے وابستہ رہے خصوصاً کراچی اور سندھ میں سکھر اسلامیہ کالج کے شعبہ انگریزی کے صدر بھی رہے اور یہی پوزیشن بلوچستان کی یونیورسٹی میں رہی۔ فاروقی کی کئی حیثیتیں ہیں۔ انہوں نے ناول بھی لکھے ہیں، ناول کی تاریخی تنقید بھی نیز بعض شعروادب اور اصناف پر بھی نگاہ ڈالی۔ ان کے اکثر مضامین ’’سیپ‘‘ کراچی میں شائع ہوتے رہے۔
فاروقی یوں تو ساری زندگی تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے لیکن ہمیشہ تصنیف وتالیف میں گہری دلچسپی لیتے رہے اس لئے ان کی کتابوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن یہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعتاً تعداد کیا ہے لیکن اتنا اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ احسن فاروقی تخلیقی اور تنقیدی کام سے کبھی غافل نہیں رہے انہیں صحافت سے بھی تعلق رہا تھا اور سبھی جانتے ہیں کہ ایک زمانے تک وہ ’’نیادور‘‘ کراچی کے ادارتی شعبہ سے منسلک رہے۔ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ موصوف نے 1938ء میں میر انیس کی مرثیہ نگاری پر ایک گراں قدر مقالہ سپردقلم کیا تھا۔ شاید یہی مقالہ ادبی حلقوں میں ابتدا میں ان کی شناخت کا باعث بنا۔ اس سال ان کا ناول ’’شام اودھ‘‘ شائع ہوا جس کی بیحد پذیرائی ہوئی۔ ’’شام اودھ‘‘ میں ایک نواب صاحب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن عام طور سے جس طرح نواب ہوا کرتے ہیں وہ کردار یہاں نہیں ملتا بلکہ جو پس منظر اور واقعات پیش کئے گئے ہیں وہ نواب صاحب کی شخصیت کو مثبت ہی بناتے ہیں۔ یہ ناول تو مشہور ہوا ہی ان کی دوسری کتاب ’’اردو ناول کی تنقیدی تاریخ‘‘ آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ اپنے وقت میں اس کی اور بھی اہمیت رہی ہوگی لیکن تب سے اب تک ناول اور خصوصاً اردو ناول نے معیار کی اچھی خاصی مسافت طے کی ہے اس لئے اس کے بعض مباحث ترمیم چاہتے ہیں۔ پھر بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ’’فانی اور ان کی شاعری‘‘ بھی ان کی ایک اچھی کتاب ہے جو اتنی مشہور تو نہیں ہوئی لیکن فانی کی تفہیم میں یہ کتاب آج بھی معاون ہے۔ انہوں نے تاریخ ادب انگریزی بھی قلمبند کی، یہ مختصر ہے۔ اس کے باوجود اس کے محتویات قابل مطالعہ ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو براہ راست انگریزی ادب کا مطالعہ نہیں کرسکتے ان کے لئے یہ کتاب تحفے سے کم نہیں ہے۔
احسن فاروقی نے قرۃ العین حیدر پر خصوصی توجہ کی۔ یوں تو انہوں نے کوئی مستقل کتاب اس باب میں نہیں لکھی لیکن ’’آگ کا دریا‘‘ پر ان کا مضمون بیحد اہم ہے اور اس کے کئی گوشے پر اچھی روشنی ڈالتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ احسن فاروقی کی ادبی کاوشیں ایسی ہیں کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ان کی بعض کتابیں ایک عرصے کے بعد بھی زندہ ہیں اور آج بھی خاص طور پر طالب علموں کی رہنمائی کررہی ہیں۔ خواص بھی انہیں اپنے مطالعے میں رکھتے ہیں۔
احسن فاروقی کی وفات 28 فروری 1978ء کو ہوئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets