aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شفیق جونپوری اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری کا رشتہ اپنے عہد کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل سے بہت گہرا اور بہت تخلیقی رہا ہے۔ نظموں کے علاوہ ان کی غزلوں میں بھی یہ عصری حسیت مخلتف انداز میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے غزل کی کلاسیکی لفظیات کو نئے معنیاتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کی شاندار کوشش کی ہے۔ اپنی انہیں خصوصیات کی وجہ سے شفیق اپنے وقت میں بہت مشہور اور مقبول ہوئے۔
شفیق جونپوری (اصل نام ولی الدین) 26 مئی 1902 کو پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی روزگار کے مسائل میں پھنس گئے لیکن شاعری کا شوق روز بروز بڑھتا گیا۔ حفیظ جونپوری ، نوح ناروی اور حسرت موہانی سے کلام پر اصلاح لی۔ شفیق کے شعری مجموعے : تجلیات ، بانگ جرس ، حرمت عشق ، شفق ، طوبی ، سفینہ ، فانوس ، خرمن ، شانہ ، نے ۔ شفیق نے دو سفرنامے بھی لکھے ۔ ’حجاز نامہ‘ اور ’خاتم‘ ۔ یہ دونوں سفرنامے اپنے خوبصورت اسلوب کی بنا پر بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets