aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جاوید نامہ علامہ اقبال کی فارسی زبان میں ایک شاہ کار کتاب ہے ۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے خود فرمایا کہ یہ کتاب مکمل کرکے مجھے یوں لگا جیسے میں نچڑ کر رہ گیا ہوں۔ یہ کتاب مثنوی کی شکل میں لکھی گئی ہے، اور تقریباً 2,000 اشعار پر مشتمل ہے اور یہ سب سے پہلے 1932 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب دراصل علامہ اقبالؒ کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا روم انہیں مختلف سیاروں کی سیر کرواتے ہیں جہاں علامہ اقبال تاریخ کی کئی نامور ہستیوں کی ارواح سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس مثنوی میں قسم قسم کے علمی و فکری، دینی و سیاسی اور اجتماعی حقائق کو پیش کیا گیا ہیں۔ اقبال نے اپنی اس کتاب کو دانتے کی کتاب ڈیوائن کامیڈی کے طرز پر ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی کہا ہے۔ کتاب کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے مگر اصل مطالب تب آتے ہیں جب شاعر شام کے وقت دریا کنارے مولانا روم کے بعض اشعار پڑھ رہا ہوتا ہے کہ مولانا رومی کی روح وہاں حاضر ہوجاتی ہے۔ شاعر رومی کی روح سے چند سوال کرتا ہے جس کا جواب رومی کی روح دیتی ہے پھر رومی اور شاعر کی روح فضا کا سفر کرتی ہے راستے میں وہ ستاروں کا نغمہ سنتے ہیں جو ان کو خوش آمدید کہتا ہے۔ چاند پر رومی اور شاعر توقف کرتے ہیں۔ فلک قمر پر ان کی ملاقات ایک جہاں دوست سے ہوئی ہے جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی و شوامتر ہے۔ وشوامتر علامہ اقبال سے چند سوالات کرتا ہے جس کا وہ جواب دیتے ہیں۔۔۔ پھر وہ ایک فلک پر ابن حلاج، غالب اور قرۃ العین کی روحوں سے ملتے ہیں مرزا غالب سے ادبی اور مذہبی سوالات پوچھے جاتے ہیں، اسی طرح اقبال اور رومی مختلف آسمانوں کی سیر کرتے ہیں، جہاں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ آخری حصے میں کتاب کا شاعر اپنے بیٹے سے خطاب کرتا ہے جو دراصل آنے والی نسل سے ایک خطاب ہے۔اس طرح یہ افلاکی ڈرامہ بڑے دلچسپ انداز میں ختم ہوتا ہے۔ زیر نظر "جاوید نامہ" کی شرح ہے جس کو خواجہ حمید یزدانی نے انجام دیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free