aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سید شاکر حسین رضوی شاکرؔ جرولی قصبہ جرول ضلع بہرائچ کے باوقار تعلقہ دار اپنے نانا حاجی سید مجاور حسین کے علمی خانوادے میں۹؍ اگست ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے ان کے والد سید فیاض حسین پولس سروسز میں سرکل آفیسر کے عہدے پر فائز تھے ۔آپ کی صاحبزادی مشہور شیعہ عالم دین سید علی ناصر سعید عبقاتی آغاروحی کو بیاہی تھی۔
کمسنی میں وہ اپنے چچا کے ہمراہ دہلی چلے گئے اور انھوں نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اس کے بعد وہ شہر نگاراں لکھنو آگئے اور یہاں انہوں نے انٹر پاس کیا ۔اس کے بعد لکھنوء یونیورسٹی میں پروفیسر آل احمد سرور،پروفیسر مسعود حسن رضوی، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی پروفیسر احتشام حسین جیسے ادبا اور نقادوں کے زیر سایہ انگریزی اور فارسی میں بی اے پاس کیا۔تلاش معاش میں بمبئی چلے گئے وہاں خواجہ احمد عباس نے ان کی رہنمائی کی اور انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا ۔شاکرؔ جرولی مختلف انگریزی اخبارات سے منسلک رہے ۔آخیر میں وہ لکھنو تشریف لائے اور یہاں وہ اردو روز نامہ قومی آواز سے ۱۹۶۲ءمیں سب ایڈیٹر رہے ۔لکھنو میں سالکؔ لکھنوی کے دور تک وہ ادبی محاذ پر مستقل سرگرم رہے ۔
آپ نے تمام ادبی اصناف میں اپنی قلم کا جوہر دکھایا ہے آپ کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے جن کے نام یہ ہیں:۔’صدا بصحرا ‘ ، ’فراز عرش‘ ،’محفل جعفریہ‘نعتیہ مجموعہ ’نقوش عقیدت‘ اور نوحوں کا مجموعہ ’پیاسے سجدے ‘ ، اس کے علاوہ نثری مجموعہ ’شیشے کا لہو ‘،فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی کے مالی تعاون سے۱۹۸۶ءمیں دوسرا سوانحی ناول ’سیدھے ورق ٹیڑھی کہانی ‘اس کے علاوہ غزلوں کا مجموعہ ’ فن کی چھاوں‘ آپ کے انتقال کے بعد ۲۰۰۹ءمیں شائع ہوا۔
۸؍مئی۲۰۰۳ء کو ان کا انتقال اپنے آبائی وطن جرول قصبہ کی آبائی حویلی میں ہوا اور تدفین مقامی کربلا میں ہوئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets