aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
حیات اللہ انصاری اردوكے افسانہ نگار و صحافی ہیں۔زیر نظر كتاب"شكستہ كنگورے"ان كے افسانوں كامجموعہ ہے۔حیات اللہ انصاری كرشن چندر اور بیدی كے ہم عصر تھے۔ترقی پسند تحریك كے زیر اثر افسانہ نگاری كا آغاز كیا۔انسان كی قدروقیمت اور حقیقت نگاری ان كےافسانوں كی دو اہم خوبیاں ہیں۔ زیر نظرمجموعہ كے تمام افسانوں میں بھی یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔مجموعہ كانام "شكستہ كنگورے"اس میں شامل ایك افسانے پر مشتمل ہے ۔یہ حیات اللہ انصاری كا ایك اہم افسانہ ہے جس كا مركزی كردار "منیر"زوال پذیرجاگیردارانہ طبقہ سے تعلق ركھتا ہے۔افسانے كی ساری كہانی اسی كے گردگھومتی ہے۔منیر اپنے جاگیردارنہ نظام ،اس كی شان و شوكت كو پھر سے واپس لانے كی تگ ودود كرتا ہے۔ لیكن اپنے گاوں كے كسانوں كی پریشانیوں كو دیكھ كر انھیں دور كرنے میں لگ جاتا ہے۔اس كردار کاجاگیردارانہ طبقے سے ہوتے ہوئے خوداس نظام کے خاتمہ كی كوشش كرنا ایک مثبت رویہ ہے۔اس طرح افسانہ نگار نے انسان كی قدرو قیمت كی اہمیت كو واضح كیا ہے۔ اس مجموعہ كے دیگرافسانے بھی اسی طرح كے موضوعات كا احاطہ كرتے ہیں۔ہر افسانے كا پلاٹ مربوط اور مكمل ہے۔ہرافسانہ میں كرداروں اور واقعات کاربط قاری كو اول تا آخر باندھے ركھتا ہے۔ اس كے علاوہ منظر نگاری مكمل جزئیات كے ساتھ عمدہ ہے۔افسانوں كی زبان سیدھی سادی ہے جس میں نئی تشبیہات و محاوروں نے مزید حسن پیدا كردیا ہے۔یہ افسانوی مجموعہ متنوع موضوعات،جذبات نگاری اور حقیقت نگاری كے ساتھ قارئین كی توجہ پانے میں كامیاب ہے۔
حیات اللہ انصاری مشہور صحافی، افسانہ نگار اورناول نگارتھے۔ فاضل ادب کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے اور بی اے علی گڑھ یونیورسٹی سے کیا۔
صحافتی خدمات: مدیر ہفت روزہ ہندوستان، بانی مدیر قومی آواز لکھنؤ، مدیر ہفت روزہ سب ساتھ، مدیر ہفت روزہ سچ رنگ تھے۔
اردو خدمات: برسہا برس اترپردیش کی انجمن ترقی اردو کے صدر رہے۔ ان کی قیادت میں یو پی سے اکیس لاکھ دستخطوں سے اردو کو آئینی حقوق دلانے کے لئے اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کو ایک یاد داشت پیش کی۔ ان کی بیوی سلطانہ حیات بھی ان کے کاموں میں ان کی شریک کار رہتی تھیں۔
تعلیم بالغان کے لئے ’’دس دن میں اردو‘‘ کے نام سے ایک قاعدہ تیار کیا جس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ 1945 میں ان کی کہانی کی بنیاد پر چیتن آنند نے ’’نیچا نگر‘‘ نام کی فلم بنائی جسے کینز کے عالمی فلم میلہ میں انعام ملا۔ بین الاقوامی انعام پانے والی یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی۔ ان کی پانچ جلدوں پر مشتمل ناول ’’لہو کے پھول‘‘ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ پر مبنی ہے۔
تصنیفات: پہلا افسانوی مجموعہ: ’’بھرے بازار میں‘‘ (1923)۔ دوسرا افسانوی مجموعہ: ’’شکستہ کنگورے‘‘ ((1946اورپانچ جلدوں پر مشتمل ناول: ’’لہو کے پھول‘‘ (1969)۔ ناولٹ: ’’مدار‘‘ (1979) ناول: ’’گھروندا‘‘1980) )۔ تنقید: ’’ن م۔ راشد‘‘( (1945)، ’’جدیدیت کی سیر‘‘) (1984، تیسرا افسانوی مجموعہ: ’’ٹھکانہ‘‘(دہلی 1992)۔ تعلیم بالغان: ’’دس دن میں اردو‘‘(30ایڈیشن)، ’’دس دن میں ہندی‘‘(2ایڈیشن)، ناولٹ: ’’آخری سانس تک‘‘۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets