aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قاضی عبدالودود مئی 1896 ء کو جہان آباد (بہار) کی مشہور بستی کا کو میں نانیہال مکان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام قاضی عبدالوحید تھا۔ ان کا شمار اپنے وقت کے عالی خاندان رؤسا میں ہوتا تھا۔ یہ شاعری بھی کرتے تھے اور وحید ان کا تخلص تھا۔
قاضی صاحب نے ابتدائی درسی کتابیں گھر پر پڑھیں۔ اس کے بعد کلام پاک حفظ کرنا شروع کیا۔ عربی صرف و نحو کا مطالعہ بھی کیا۔ قاضی صاحب کے والد کی شدید آرزو تھی کہ قاضی صاحب عالم فاضل کے سند حاصل کر لیں۔ کلام پاک حفظ کریں اور رمضان شریف میں ختم تراویح کی سعادت بھی حاصل کی۔ جناب حمد کاکوی نے قطعہ حفظ کلام پاک لکھا، جس میں ’’حافظ وقاری ہوئے‘‘ سے مادہ تاریخ 1327 ء مستخرج ہوتا ہے:
شکر ہے اللہ کا عبدالودود
حفظ قرآں کر کے فارغ ہوگئے
حمد کو تاریخ کی تھی جستجو
بولا ہاتف ’’حافظ و قاری ہوئے‘‘
قاضی صاحب کے والد احمد رضا خاں تحریک سے وابستہ تھے اور اس تحریک کی نشر و اشاعت کے لیے انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا اور ایک ماہنامہ جاری کیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد بحیثیت مدیر قاضی صاحب کا نام اس رسالے میں چھپنے لگا اور اس تحریک سے وابستہ دوسرے افراد قاضی صاحب کی تعلیم اسی نہج پر چاہتے تھے۔ لیکن ان کی طبیعت کا میلان اس طرف نہ تھا۔ چنانچہ وہ انگریزی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کی والدہ نے ان پر کسی قسم کا جبر نہیں کیا بلکہ اس راہ پر انہیں آزادانہ چھوڑ دیا۔ اس طرح قاضی صاحب کی انگریزی تعلیم کا آغاز محمڈن اسکول، پٹنہ سے ہوا۔ پھر علیگڑھ میں تیسرے درجے میں داخل کرائے گئے۔ تیسرے درجے کا امتحان پاس کرنے اور دوسرے درجات میں کامیابی کے بعد مزید تعلیم کے لئے انگلستان جانے کا ارادہ کیااور اس ارادے کے تحت بلگرامی ٹیوٹوریل کالج میں داخلہ لیا۔ داخلے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد اس کالج کے بانی میجر سید حسن بلگرامی کا انتقال ہوگیا اور کالج بند ہوگیا۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے سردست یورپ جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ 1916ء میں پٹنہ سے پرائیویٹ طور پر میٹریکولیشن کے امتحان میں شریک ہوئے اور فرسٹ ڈویژن حاصل کیا۔ 1918 ء میں پٹنہ کالج سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ آئی اے کیا۔ پھر یہیں سے 1920ء میں امتیاز کے ساتھ بی اے کی سند لی۔ اس کے بعد تحریک ترک موالات میں شرکت کے سبب دو تین برسوں تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہا۔ مارچ 1923ء میں تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے لئے انگلستان چلے گئے۔ 1927ء میں کیمبرج ٹرائی پوس کا دوسرا حصہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ پلوریسی کا شکار ہوگئے۔ چند ماہ تک کیمبرج میں ہی ایک سینی ٹوریم میں زیر علاج رہے پھر ڈاکٹروں کے مشورے پر مزید علاج اور تبدیلی آب و ہوا کے لیے مونتانا چلے آئے صحتیاب ہونے کے بعد ٹرائی پوس حصہ دوم کے امتحان میں شریک ہوئے اور سکنڈ ڈویژن سے پاس ہوئے۔ اس درمیان فلسفہ اور نفسیات کے مضامین مطالعے میں رہے۔ 1929ء میں بارایٹ لا ہوئے اور پھر اپنے وطن پٹنہ واپس آگئے۔ یہاں آکر کچھ دنوں تک پریکٹس کرتے رہے اور باضابطہ طور پر علمی، بارایٹ لا ہوئے اور پھر اپنے وطن پٹنہ واپس آگئے۔ یہاں آکر کچھ دنوں تک پریکٹس کرتے رہے اور باضابطہ طور پر علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے۔
قاضی صاحب کے والد زمانے میں ان کے گھر پر ہفتہ وار ’’آگرہ اخبار‘‘ آیا کرتا تھا۔ بچپن میں انہوں نے اس اخبار کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں حسرت موہانی کے رسالے ’’اردو معلٰی‘‘ کی دھوم تھی۔ اس کی چند پرانی جلدیں مطالعے کے لئے منگوائیں اور پھر مسلسل منگواتے رہے۔ ’’اردو معلٰی‘‘ کے مطالعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ متشدد قسم کے کانگریسی ہوگئے۔ پھر دھیرے دھیرے کانگریسی افکارونظریات سے علیحدہ ہوگئے۔
قاضی صاحب کی ادبی و تحقیقی زندگی کی ابتدا 1912ء، 1913ء میں ہوئی۔ ان کا سب سے پہلا مضمون جو اس زمانے کے کسی رسالے میں شائع ہوا وہ اردو شعرا سے متعلق تھا۔ اس مضمون میں ’’گلزار ابراہیم‘‘ مولفہ ابراہیم خاں خلیل کے حوالے سے چند تحقیقی امور واضح کئے گئے تھے۔ 1913 ء میں ’’آگرہ اخبار‘‘ میں جذبات حسرت کے مصور کے فرضی نام سے آپ کا ایک افسانہ بھی شائع ہوا تھا۔ عنفوان شباب میں شاعری بھی کی اور بعض فارسی اشعار کے اردو ترجمے کئے۔ انگریزی افسانوں کے ترجمے بھی کئے۔ مگر قاضی صاحب نے خود کو کبھی شاعر یا افسانہ نگار کہنا پسند نہیں کیا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے اشعار اور افسانوں کو قابل اشاعت سمجھا نہ قابل حفاظت۔
قاضی عبدالودود کی شادی 1914ء میں ان کی خواہش کے مطابق شاہ نظام الدین کی صاحبزادی اور خان بہادر سید ضمیر الدین احمد کی نواسی کے ساتھ انجام پائی۔ ابھی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ڈیڑھ سال کے اندر ان کا انتقال ہوگیا۔ 1922ء میں قاضی صاحب کی دوسری شادی پٹنہ کے سربرآوردہ وکیل اور سرکاری پلیڈر شاہ رشید اللہ کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے بطن سے صرف ایک لڑکے قاضی مسعود ہیں جو بانکی پور میں پٹنہ میں خاندانی جائیداد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
1918ء میں مولوی عبدالحق کی ایما پر پٹنہ میں انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم کی گئی تھی۔ انگلستان سے واپسی کے بعد انہوں نے چند احباب کے ساتھ مل کر انجمن کو نئی صورت دی۔ اس نئی صورت میں لیڈی انیس امام انجمن کی صدر اور قاض عبدالودود سکریٹری منتخب ہوئے اور عرصہ تک اپنا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ مارچ 1936 ء میں صوبے کی انجمن کی جانب سے ایک رسالہ ’’معیار‘‘ جاری کیا جو ان کی خرابی صحت کے باعث سات شماروں کے بعد بند ہوگیا۔
قاضی عبدالودود کی تصانیف کی ایک نامکمل فہرست درج کر رہا ہوں:۔
(1)’’زبان شناسی‘‘ (2)’’غالب‘‘ (3)’’میر‘‘ (4)’’عبدالحق بحیثیت محقق‘‘ (5)’’شاد عظیم آبادی‘‘ (6)’’مصحفی‘‘ (7)’’دردوسودا‘‘ (8)’’تذکرۂ شعرا‘‘ (9)’’تبصرے‘‘ (10)’’آوارہ گرداشعار‘‘ (11)’’تحقیقات ودود‘‘ (12)’’فارسی شعروادب‘‘ (13)’’اردو شعروادب‘‘ (14)’’دیوان نعیم دہلوی‘‘ (15)’’ابوالکلام آزاد‘‘ (16)’’قطعات دلدار‘‘ (17)’’گارساں دتاسی‘‘ (18)’’تعینزمانہ‘‘ (19)’’جہان غالب‘‘ (20)’’دیوان رضا عظیم آبادی‘‘ (21)’’دیوان نعیم‘‘ (22)’’دیواننوازش‘‘ (23)’’کلام شاد‘‘ (24)’’شاہ کمال علی کمالی دیوروی اور ان کی تصانیف‘‘ (25)شعرا کے تذکرے‘‘ (26)’’فارسی شعروادب: چند مطالعے‘‘ (27)’’چند اہم اخبارات و رسائل‘‘ (28)’’محمد حسین آزاد بحیثیت محقق‘‘ (29)’’عالب بحیثیت محقق‘‘ (30)’’فرہنگ آصفیہ پر تبصرہ‘‘ (31)’’مآثر غالب‘‘ (32)’’بہار کے اخبار بہار کی روشنی میں‘‘ (33)’’کچھ شاد عظیم آبادی کے بارے میں‘‘ (34)’’مصحفی اور ان کے اہم معاصرین‘‘ (35)’’کچھ غالب کے بارے میں‘‘ (حصہ اوّل) (36)’’کچھ غالب کے بارے میں‘‘(حصہ دوم)
(یہ تمام کتابیں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے ان ہی ناموں سے شائع کرائی ہیں جن کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب ’’قاضی عبدالودود‘‘ ناصر ساہتیہ اکادمی، دہلی میں ملے گی۔ وہیں سے ان کے سوانحی امور اور دیگر باتیں ماخوذ ہیں)
قاض عبدالودود پوری اردو دنیا کے لئے ایک باکمال محقق کے طور پر معروف ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کی نکتہ چینی کرنے والے عنقا ہیں۔ ان کی تعداد بھی خاصی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ تحقیق کا جو معیار انہوں نے قائم کیا اس کی دوسری مثالیں نہیں ملتی۔ بعضوں نے انہیں نکتہ چیں کہا ہے تو بعض انہیں منفی تنقید کا علمبردار بتاتے ہیں۔ کوئی ان کی سخت گیری سے عاجز ہے اور کسی کو ان کی چشم نمائی کا گلہ ہے۔ حد تو یہ ہے چند ایک شخصیت ایسی بھی ہے جو ان کی نگارشات کو تنقیصی تنقید کے زمرے میں رکھتی ہے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر لیکن قاضی عبدالودود کا امتیاز اپنی جگہ پر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت میں کسی سے مرعوب نہ ہونے والی کیفیت ہمیشہ غالب رہی ہے۔ ان کی زد میں ایسے باکمال شعراوادبا اور محققین بھی آئے ہیں جنہیں ایک عام محقق چھو بھی نہیں سکتا تھا۔ قاضی عبدالودود کا کمال یہ ہے کہ وہ شخصیتوں کو سامنے نہیں رکھتے ان کی نگاہ میں بس تحریریں ہوتی ہیں۔ گویا ان کا تعلق Textسے ہے، متون کی کمزوری چاہے مصنف کی طرف سے سامنے آئے یا مرتب کی جانب سے، ان کی نگاہ میں دونوں قابل گرفت ہوتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے موصوف اس کی تصحیح کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ عمومی طور پر مندرجہ ذیل اعتراضات ان پر ہوتے رہے ہیں:۔
(1)ان کا اسلوب گراں بار ہے۔ (2)یہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں کی اس طرح گرفت کرتے ہیں جیسے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہوں۔ (3)انہوں نے کسی ایک موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی۔ (4)ایسے محقق ہیں جو دوسروں پر آسانی سے وار کرسکتے ہیں لیکن اگر ان کی گرفت کوئی کرتا ہے تو پھر تلملا اٹھتے ہیں اور اسے کبھی معاف کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ (5)انہوں نے بعض لوگوں کے ساتھ نارواسلوک کئے ہیں۔ اپنے عملی غرور میں بعضوں کے ساتھ ان کا رویہ نہایت غیرہمدردانہ ہی نہیں بلکہ سفاکانہ رہا ہے۔
میرے خیال میں یہ تمام اعتراضات دل جلوں کے ہیں۔ ان میں سچائی کی رمق بھی نہیں ہے۔ ان کے حاشیوں اور بعض اشاروں کو پہلے سمجھ لینا چاہئے۔ پھر ایسے مضامین کی تفہیم بھی سہل ہوجاتی ہے اور کہیں کوئی ناگوار صورت پیدا نہیں ہوئی۔
دوسرا نکتہ یہ کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی گرفت میں لاتے ہیں۔ میرے خیال سے ایک مستحسن رویہ ہے، جس کی نکتہ چینی فعل عبث ہے۔ ایک چھوٹی غلطی بہتوں کو گمراہ کرسکتی ہے اور یہی غلطی بڑی ہوکر مسلسل اور متواتر سچائیوں کو مکدر کرسکتی ہے۔
یہ کہنا کہ قاضی عبدالودود نے کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی، دراصل ان کی نگارشات سے لاعلمی کا ثبوت ہے۔ قاضی عبدالودود نے بعض ایسے طویل مضامین لکھے ہیں جو کئی کتابوں پر بھاری ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قاضی عبدالودود اپنی جارحانہ منفی تحریروں سے لوگوں کا تمسخر اڑا کر انہیں پست ہی نہیں کرتے بلکہ زخمی کر ڈالتے ہیں جب کہ خود اپنے آپ پر کوئی تنقید سننے اور سہنے کے عادی نہیں۔ میرے خیال میں یہ بات بھی غلط ہے اس لئے ان پر جن لوگوں نے مخالفت میں قلم اٹھائے ہیں ان کا انہوں نے جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھاا اور ان لوگوں سے ان کے تعلقات بگڑے بھی نہیں۔ سامنے کی مثال جناب امتیاز علی عرشی ہیں۔ قاضی عبدالودود نے ان کی بھی بعض تحریروں کی تحقیقی غلطیاں سامنے لائیں۔ لیکن دونوں کے تعلقات جہاں تک مجھے علم ہے ہمیشہ خوشگوار رہے۔
جہاں تک بعضوں کے ساتھ قاضی صاحب کے سلوک ناروا کا تعلق ہے، یہ بھی سراسر الزام کے سوا کچھ نہیں ہے، جن لوگوں نے قاضی عبدالودود سے ملاقاتیں کی ہیں اور جس طرح کے لوگوں نے کی ہیں وہ سب کے سب مرے نہیں ہیں ان کی کثیر تعداد موجود ہے۔
قاضی صاحب کی بیماری کا اثر ان کی صحت پر تادیر قائم رہا۔ یہی سبب ہے کہ وہ باضابطہ طور پر پریکٹس بھی نہ کرسکے اور تنگ آکر پریکٹس سے عمر بھر کے لئے توبہ کر لی۔ 1970ء کے آس پاس پھر بیمار رہنے لگے۔ 1973ء میں اختلاج قلب کا شدید دورہ پڑا۔ دلّی میں کچھ روز زیر علاج رہنے کے بعد صحتیاب ہو کر گھر واپس آگئے۔ 1979ء کے وسط میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ قاضی صاحب کے لئے یہ غم نہایت شدید تھا۔ ان کے انتقال کے ایک ماہ بعد ہی جولائی 1979ء سے بائیں پاؤں کی انگلیاں شل رہنے لگیں اور داہنے ہاتھ نے کام کرنے سے انکار کردیا۔ اسی حالت میں 25؍ جنوری 1984 ء کو پٹنہ میں انتقال ہوگیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets