aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سراج لکھنوی کا تعلق بیسویں صدی کے اوائل سے ہے۔ ان کے اس مجموعے میں ان کے تین ادوار کی غزلیں مجتمع ہوئی ہیں۔ جس میں پہلا دور 1918 سے 1940 تک ہے، دوسرا دور 1941 سے 1950 تک ہے اور تیسرا اور آخری دور 1951 سے 1960 تک عہد کو محیط ہے۔ سراج کا تعلق چونکہ لکھنؤ سے تھا اس لیے ان کی شاعری میں وہ گہرائی کم ہی سہی جو دلی کا امتیاز سمجھی جاتی ہے، لیکن ان کی شاعری میں برتی جانے والی زبان بہرحال اتنی رواں ہے جو ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ وضعداری، رکھ رکھاؤ، نفاست چونکہ ان کے مزاح کا حصہ تھا اس لیے یہ تمام عناصر ان کی شاعری میں بھی در آئے ہیں۔ جہاں تک ان کی شعری زبان کا معاملہ ہے تو یہ لکھنؤ کی خالص ٹکسالی زبان ہے خاص طور سے ان کے پہلے دور کی شاعری تو اسی میں رنگی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ ان کا شعری اختصاص ہی ہے عام لکھنوی شعرا کے برعکس وہ محض زبان و بیان اور محاورے تک ہی محدود نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے تخیل کی پرواز کا بھی سہارا لینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
Siraj Lucknowi is a true representative of the literary culture of Lucknow where he was born and brought up. He is credited with introducing new linguistic and stylistic features, as well as projecting new thematic concerns in his poetry. Marked for its creative resilience, his poetry developed a fresh perspective on life and times.
Siraj Lucknowi was born in 1894. After receiving his education at Church Mission High School, he started working for Cooperative Society to earn his livelihood and remained associated with it all his life. He passed away in 1960 at Lucknow.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free