aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جدید ہندی ادب کا معمار اردو کا ہی ایک شاعر تھا۔ اسی نے جدید نثر کو نیا رنگ و آہنگ اور طرز اسلوب عطا کیا تھا۔ اس کے نام سے ہندی ادب کا ایک عہد بھی منسوب ہے۔ اس شخصیت کا نام بھارتیندو ہریش چندر ہے اور تخلص رساؔ ۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتیندو نے سرسید احمد خاں کی اردو نثر کی سادگی، صفائی بیان سے متاثر ہو کر یہ طرز اختیار کیا تھا۔ یہ انسٹی ٹیوٹ گزت علی گڑھ کے اہم قلمکاروں میں سے تھے۔ جن کا اردو میں ایک مضمون’ ہندوؤں کا قانون وراثت‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مگر بعد میں اردو کا یہی شاعر ہندی اردو تنازعہ میں ہندی کا متشدد حامی اور وکیل بن گیا۔
بھارتیندو ہریش چندر ۹؍ ستمبر ۱۸۵۰ عیسوی کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گوپال چندر، گروہر داس کے قلمی نام سے شاعری کرتے تھے۔ بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ انہوں نے ۱۵ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ پوری کے جگناتھ مندر کی یاترا کی تھی اور وہ بنگال کی نشاۃثانیہ سے بہت متاثر تھے۔ یہیں سے انہیں ڈرامے اور ناول لکھنے کی تحریک ملی۔
بھارتیندو ہریش چندر نے مختلف نثری اصناف میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ صحافی کی حیثیت سے بھی ان کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے کوی واچن سدھا (۱۸۶۸ء) ہریش چندر میگزین (۱۸۷۳ء) ہریش چندر پتریکا اور بال بودھنی جیسے رسالوں کی ادارت کی۔
ڈارمہ نگار کے طور پر ان کی پہچان مستحکم ہے۔ ان کے مشہور و معروف ڈراموں میں بھارت دردشا (۱۸۷۵ء) ستیہ ہریش چندر (۱۸۷۶ء) نیل دیو ی (۱۸۸۱ء) اندھیر نگری (۱۸۸۱ء) قابل ذکر ہیں۔
بھارتیندو ایک عمدہ شاعربھی تھے۔ انہوں نے ذہن رسا پایا تھا۔ اس لیے اپنے تجربات و مشاہدات کو شعری پیکر میں ڈھالتے رہتے تھے۔ ان کی پریم سیریز کی کویتائیں بہت مشہور ہیں۔ ان میں پریم ملیکا، پریم مادھوری، پریم ترنگ، پریم پھلواری، پریم سرور قابل ذکر ہیں۔ بھکت سروگیہ، مدھومکل، راگ سنگرہ بھی ان کی مشہور کویتائیں ہیں۔
بھارتیندو نے بہت سی شاہکار تخلیقات کے ترجمے بھی کئے ہیں جن میں شکسپیر کی مرچنت آف وینس کاترجمہ ’درلبھ بندھو‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ بنگلہ اور پراکرت سے بھی ترجمے کئے ہیں جن میں ودیا سندر، کرپورا منجری اہم ہیں۔ رتناولی اور مدراراکشش بھی ان کی ترجمہ کردہ کتابیں ہیں۔
بھارتیندو ہریش چندر اصلاحاتی تحریک سے بھی جرے ہوئے تھے۔عورتوں میں تعلیمی بیداری کے لیے ’بال بودھنی‘ نام سے ایک رسالہ بھی شائع کرتے رہے۔ عورتوں کی تعلیم سے متعلق ان کی کئی کتابیں ہیں۔ نیل دیوی ڈرامہ کا موضوع بھی عورتون کی تعلیم ہی ہے۔ جدید تعلیم اور تکنا لوجی کے وہ مداح تھے اسی لئے ملکہ وکٹوریہ اور پرنس آف ویلس کو ابہت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
بھارتیندو ہریش چندر سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کے رکن بھی تھے اور سر سید احمد خاں کے قریبی دوستوں میں تھے۔
سرسید چاہتے تھے کہ بھارتیندو علی گڑھ کالج میں ہندی اور سنسکرت کی تدریسی خدمات انجام دیں مگر بھارتیندو نے کسی وجہ سے سر سید کی پیشکش قبول نہیں کی۔ مگر وہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے مداحوں میں تھے۔ سر سید کے نام ایک اردو خط میں اس کا اظہار بھی ہے۔ سر سید اکادمی علی گڑھ میں یہ خط محفوظ ہے۔ بحوالہ راحت ابرار، سر سید احمد خان اور ان کے معاصرین۔
سر سید احمد خاں جب بنارس میں کورٹ جج تھے تو بھارتیندو کے خلاف ایک سیاح نے رٹ دایر کی تھی۔ کیس سرسید کی عدالت میں تھا۔ سرسید نے ہلکا سا جرمانہ لگا کر انہیں بری کر دیا تھا۔
سر سید احمد خاں سے گہرے مراسم کے باوجود بھارتیندو ان کے نظریاتی مخالف بھی تھے۔ اس احیائی تحریک کا موجد تھے جس نے عدالتوں میں اردو کی جگہ ہندی کی پر زور وکالت کی تھی اور جس کا گؤ کشی پر پابندی لگانے پر پورا زور تھا۔
بھارتیندو ہریش چندر کا بنارس میں ۶ ؍ جنوری ۱۸۸۵ء میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۳ سال تھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets