شاید یہ جان کر بہتوں کو حیرت ہوگی کہ اردو ادب کی تاریخ میں چشتی سلسلہ کے ایک ایسے بزرگ ادیب، دانشور، مؤرخ ، صحافی اور صاحب طرز انشا پرداز کا نام نمایاں طور پردرج ہے جس نے نہایت والہانہ عقیدت کے ساتھ شری کرشن کی زندگی کے واقعات پر مبنی ’کرشن بیتی‘ کے نام سے نہ صرف کتاب لکھی بلکہ تمام ہندو تیرتھوں کی یاترا سادھووں کے لباس میں کی، ویدانت کا فلسفہ سیکھا اور’ تیرتھ یاترا، کے عنوان سے اپنا سفرنامہ لکھا جو کسی وجہ سے شائع نہ ہو سکا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ”ہندوستان کے نامور بزرگ شری رام چندر جی، شری کرشن اور مہاتما بدھ کے حالات پڑھنے، ان کی طرز زندگی پر غور کرنے اور ان کی تعلیمات پر منصفانہ نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے وہی حالات تھے جو سیدنا حضرت ابراہیم ،عیسیٰ اور موسیٰ کے تھے اور وہی تعلیم تھی جس کا ذکر بار بار قرآن شریف میں آیا ہے۔“
انہوں نے ہی گاؤ کشی کے خلاف ۱۲۹۱ءمیں’ترک قربانی گاﺅ‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ تحریر فرمایا جس میں مذہبی اور منطقی دلیلوں سے ثابت کیا کہ گاؤ کشی مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ اسلامی شعار ہے۔ انہوں نے مسلمان بادشاہوں کے طرز عمل اور ان کے فرمانوں کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ بابر، اکبر اور جہاں گیر وغیرہ نے گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا تھا۔ انہوں نے مختلف علما اور دانشوران ملک و ملت کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ گو رکشا انسانوں ہی کی رکشا ہے۔
قومی یک جہتی اور اتحاد کے اس علمبردار کا نام خواجہ حسن نظامی ہے۔ جنہیں ادبی دنیا مصور فطرت کے نام سے جانتی ہے۔
خواجہ حسن نظامی (اصل نام سید علی حسن) کی پیدایش بستی حضرت نظام الدین دہلی میں 1879 میں ہوئی۔ ان کے والد حافظ سید عاشق علی نظامی تھے، والدہ سیدہ چہیتی بیگم تھیں۔ ان کا شجرہ حضرت علی مرتضیٰ سے ملتا ہے۔
خواجہ صاحب نے ابتدائی تعلیم بستی نظام الدین میں حاصل کی، ان کے اساتذہ میں مولانا اسماعیل کاندھلوی، مولانا یحیٰ کاندھلوی جیسی عظیم ہستیاں تھیں۔ انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کے مدرسہ رشیدیہ گنگوہ سے فراغت حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی ان کی شادی سیدہ حبیب بانو سے ہوئی جو ان کے حقیقی چچا سید معشوق علی کی دختر نیک اختر تھیں۔
خواجہ حسن نظامی کا بچپن بہت تکلیفوں میں گزرا۔ ان کے والد جلد سازی کر کے اپنے گھر کا خرچ چلاتے تھے۔ خود خواجہ صاحب نے درگاہ کے زائرین کے جوتوں کی حفاظت کر کے گھر والوں کی مدد کی۔ گزراوقات کے لیے خواجہ صاحب نے پھیری لگا کر کتابیں اور دہلی کی عمارتوں کے فوٹو بھی فروخت کیے۔
خواجہ حسن نظامی کا تعلق صوفی خاندان سے تھا اس لیے انہوں نے بھی خاندانی روایت کے مطابق خواجہ غلام فرید کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڈوی سے بیعت ہوئے۔ وہ درگاہ سے وابستہ تھے مگر پیرزادگی انہیں پسند نہ تھی اس لیے معاش کی دوسری راہ نکالی۔ وہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے حلقہ نظام المشائخ قائم کیا جس کے تحت ’نظام المشایخ‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ اپنے ایک دوست احسان الحق کے ہفتہ وار اخبار ’توحید‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ پھر اپنا رسالہ ’منادی‘ بھی نکالا۔
خواجہ حسن نظامی کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے بارے میں دشمنوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ انگریزوں کے جاسوس ہیں۔ ان کے خلاف اخبارات بھی شائع کیے گئے۔ ان کے’ منادی‘ کے خلاف ہفتہ وار اخبار 'سنادی' نکالا گیا۔
خواجہ حسن نظامی نے ان مخالفتوں کی پرواہ نہیں کی اور مسلسل محنت کرتے رہے۔ اور اس محنت نے انہیں شہرت اور عظمت عطا کی انہوں نے اپنا ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ ہمہ وقت کتابوں کی تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے۔ ان کتابوں پر ہی ان کی آمدنی کا انحصار تھا۔ کتابوں کے کاروبار سے حلال رزق کھاتے تھے اس لئے نذر و نیاز سے دوری بنائے رکھی تھی۔ انہوں نے ایک دواخانہ بھی کھول رکھا تھا۔ جس میں دوائیاں تیار کی جاتیں۔ انہوں نے ایک اردو سرمہ بھی تیار کیا تھا جس کا اشتہار اپنے رسالہ ’منادی‘ میں دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ ”آج میں نے ایک سرمہ تیار کیا ہے ۔ میں نے اس سرمہ کا نام اردو سرمہ اس واسطے تجویز کیا ہے کہ اردو زبان بھی آنکھوں کو ایسا ہی روشن کرتی ہے۔“
خواجہ حسن نظامی اردو ادب کے تاریخ میں کئی حیثیتوں سے یاد رکھے جائیں گے۔ روزنامچہ کو باقاعدہ صنف کی حیثیت انہوں نے ہی دی۔ قلمی چہروں کا سلسلہ بھی انہوں نے ہی شروع کیا۔ بحیثیت صحافی ان کا نام بہت بلند ہے کہ ان کی سرپرستی اور ادارت میں سب سے زیادہ روزنامے، ہفتہ واراخبار اور ماہانہ جرائد شائع ہوئے۔ نظام المشائخ، روزنامہ رعیت، ماہانہ دین دنیا، منادی، ماہنامہ آستانہ ان تمام اخبارات و رسائل سے خواجہ حسن نظامی کی کسی نہ کسی طور پر وابستگی رہی ہے۔
خواجہ حسن نظامی ایک مؤرخ بھی تھے۔ 1857 کے انقلاب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے اس ضمن میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ تاریخ کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ بیگمات کے آنسو، غدر کے اخبار، غدر کے فرمان، بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ ، غدر کی صبح و شام، محاصرہ دہلی کے خطوط ان کی نہایت اہم کتابیں ہیں۔
خواجہ حسن نظامی نے ہر موضوع پر لکھا، شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر ان کی کوئی تحریر نہ ملے۔ انہوں نے آپ بیتی بھی لکھی، سفرنامے بھی لکھے، سفرنامہ حجاز مصر و شام، سفرنامہ ہندوستان، سفرنامہ پاکستان، قابل ذکر کتابیں ہیں۔ ’گاندھی نامہ‘ اور ’یزید نامہ‘ بھی ان کی اہم کتابوں میں سے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی نے انشائیے بھی لکھے۔ جھینگر کا جنازہ، گلاب تمہارا کیکر ہمارا، مرغ کی اذان، مچھر، مکھی، الّو ان کے مشہور انشائیے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی کا اسلوب سب سے الگ تھا۔ وہ ایک صاحب طرز انشا پرداز تھے، اپنے اسلوب کے موجد بھی اور خاتم بھی۔
خواجہ حسن نظامی کا انتقال 13 جولائی 1955 میں ہوا۔ وہ بستی حضرت نظام الدین نئی دہلی میں مدفون ہیں۔