aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو زبان کے گیان پیٹھ انعام یافتہ ’شہریار‘ کی یہ کلیات اُن کے انتقال کے بعد شایع ہوئی۔ اس میں اُن کے تمام شعری مجموعے ’اسمِ اعظم‘ ، ساتواں در‘، ’ ہجر کے موسم‘، ’خواب کا در بند ہے‘ ، ’نیند کی کرچیں‘، ’شام ہونے والی ہے‘ کے علاوہ باقیات بھی شامل ہیں۔ اس کلیات کا نام شہریار نے اپنے ہی شعر سے مستعار لیا ہے۔ ایک ہی دھن ہے کہ اس رات کو ڈھلتا دیکھوں... اپنی ان آنکھوں سے سورج کو نکلتا دیکھوں۔
کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہر یار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ 16 جون 1936کو آنولہ، ضلع بریلی، اُتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہردوئی میں حاصل کی۔ 1948میں علی گڑھ آئے۔ 1961 میں اردو میں ایم اے کیا۔ 1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے۔ 1996میں یہیں سے پروفیسر اور صدر اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ہاکی، بیڈمنٹن اور رمی کھیلنا پسند کرتے تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی سے قربت کے بعد شاعری کا آغاز ہوا۔ کچھ غزلیں کنور محمد اخلاق کے نام سے شائع ہوئیں۔ خلیل الرحمان اعظمی کے مشورے پر اپنا نام شہریار رکھا۔ ان کے والد پولس انسپکٹر تھے۔ انجمن ترقی اردو (ہند )علی گڑھ میں لٹریری اسسٹنٹ بھی رہے اورانجمن کے رسائل اردو ادب اور ہماری زبان کی ادارت بھی کی۔ مغنی تبسم کے ساتھ شعر وحکمت کی ادارت بھی کی۔ ان کی شہرت میں مظفر علی کی گمن اور امراؤ جان جیسی فلموں کا اہم رول ہے۔ فلم انجمن کے گانے بھی انہی کے لکھےہوئے ہیں۔ ساہیتہ اکادمی کے لیے بیدار بخت نے مری این ائر کی مدد سے ان کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک انگریزی ترجمہ رخشندہ جلیل نے بھی کیا ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز پاکستان سے ان کا کلیات شائع ہوا جس میں ان کے چھے مجموعے شامل ہیں۔ یہی کلیات 'سورج کو نکلتا دیکھوں' کے نام سے ہندوستان سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو میں ہو چکا ہے۔ گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکیڈمی سمیت متعد د اعزازات سے نوازے گئے۔ 13 فرروری2012 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets