aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جدید اردو فکشن کا بادشاہ
’’اعلیٰ ترین افسانہ وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد کسی نفسیاتی حقیقت پر رکھی جائے برا شخص بالکل ہی برا نہیں ہوتا، اس میں کہیں فرشہ ضرور چھپا ہوتا ہے۔ اس پوشیدہ اور خوابیدہ فرشتہ کو ابھارنا اور اس کا سامنے لانا ایک کامیاب افسانہ نگار کا شیوہ ہے۔‘‘
منشی پریم چند
پریم چند اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے اک بڑے افسانہ نگار اور اس سے بھی بڑے ناول نگار سمجھے جاتے ہیں۔ ہندی والے انھیں’’اُپنیاس سمراٹ‘‘ یعنی ناول نگاری کا بادشاہ کہتے ہیں۔ اپنی تقریباً 35 سال کی ادبی زندگی میں انھوں نے جو کچھ لکھا اس پر اک بلند قومی نصب العین کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ان کی تحریروں میں حب الوطنی کا جو شدید جذبہ موجزن نظر آتا ہے اس کی اردو افسانہ نگاری میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ تحریک آزادی کے متوالے تھے یہاں تک کہ انھوں نے مہاتما گاندھی کی تحریک ’’عدم تعاون‘‘ پر لبّیک کہتے ہوئے اپنی 20 سال کی اچھی بھلی نوکری سے، جو انھیں طویل افلاس اور شدید مشقّت کے بعد حاصل ہوئی تھی، استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کی تحریروں میں بیسویں صدی کے ابتدائی30---35 برسوں کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں انھوں نے اپنے کردار عام زندگی سے اخذ کئے لیکن یہ عام کردار پریم چند کے ہاتھوں میں آ کر خاص ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے اندرون میں جھانکتے ہیں، ان میں پوشیدہ یا خفتہ خیر و شر کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کے اندر جاری کشاکش کو محسوس کرتے ہیں اور پھر ان کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ کردار قاری کو جانے پہچانے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ عورت کی عظمت، اس کی نسائیت کی جہات اور اس کے حقوق کی پاسداری کا جیسا احساس پریم چند کے یہاں ملتا ہے ویسا اور کہیں نہیں ملتا۔ پریم چند مثالیت نواز، حقیقت نگار تھے۔ ان کی تحریروں میں مثالیت پسندی اور حقیقت شناسی کے مابین اک توازن کی تلاش کا اک مسلسل عمل جاری نظر آتا ہے۔
منشی پریم چند 31 جولائی 1880 کو بنارس کے نزدیک موضع لمہی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے تھا اور گھر میں انھیں نواب رائے کہا جاتا تھا۔ اسی نام سے انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کے والد عجائب رائے ڈاکخانے میں 20 روپے ماہوار کے ملازم تھے اور زندگی تنگی سے بسر ہوتی تھی۔ زمانہ کے دستور کے مطابق پریم چند نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مولوی سے مکتب میں حاصل کی پھر ان کے والد کا تبادلہ گورکھپور ہو گیا تو انھیں وہاں کے اسکول میں داخل کیا گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد عجائب سنگھ تبدیل ہو کر اپنے گاؤں واپس آگئے۔ جب پریم چند کی عمر سات برس تھی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور باپ نے دوسری شادی کرلی۔ اس کے بعد گھر کی فضا پہلے سے بھی زیادہ تلخ ہوگئی جس سے فرار کے لئے پریم چند نے کتابوں میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ ایک کتب فروش سے لے کرسرشار، شررؔ اور رسواؔ کے ناول، طلسم ہوش ربا اور جارج رینالڈس وغیرہ کے ناولوں کے ترجمے پڑھنے لگے۔
پندرہ سال کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی ان سے زیادہ عمر کی اک بدصورت لڑکی سے کردی گئی۔ کچھ دن بعد عجائب رائے بھی چل بسے اور بیوی کے علاوہ سوتیلی ماں اور دو سوتیلے بھائیوں کی ذمہ داری ان کے سر پر آگئی۔ انھوں نے ابھی دسویں جماعت بھی نہیں پاس کی تھی۔ وہ روزانہ ننگے پیر دس میل چل کر بنارس جاتے، ٹیوشن پڑھاتے اور رات کو گھر واپس آکر دیئے کی راشنی میں پڑھتے۔ اس طرح انھوں نے 1889ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حساب میں کمزور ہونے کی وجہ سے انھیں کالج میں داخلہ نہیں ملا تو 18 روپپے ماہوار پر اک اسکول میں ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے 1904ء میں الہ آباد ٹریننگ اسکول سے تدریس کی سند حاصل کی اور 1905ء میں ان کا تقرر کانپور کے سرکاری اسکول میں ہو گیا۔ یہیں ان کی ملاقات رسالہ ’’زمانہ‘‘ کے اڈیٹر منشی دیا نرائن نگم سے ہوئی۔ یہی رسالہ ادب میں ان کے لئے لانچنگ پیڈ بنا۔ 1908ء میں پریم چند سب انسپکٹر مدارس کی حیثیت سے مہوبہ(ضلع ہمیر پور) چلے گئے۔ 1914ء میں وہ بطور ماسٹر نارمل اسکول بستی بھیجے گئے اور 1918ء میں تبدیل ہو کر گورکھپور آ گئے۔ اگلے سال انھوں نے انگریزی، ادب، فارسی اور تاریخ کے مضامین کے ساتھ بی۔ اے کیا۔ 1920ء میں، جب تحریک عدم تعاون شباب پر تھی اور جلیانوالہ باغ کا واقعہ گزرے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا، گاندھی جی گورکھپور آئے۔ ان کی ایک تقریر کا پریم چند نے یہ اثر لیا کہ اپنی بیس سال کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ایک بار پھر معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے۔ 1922ء میں انھوں نے چرخوں کی دکان کھولی جو نہیں چلی تو کانپور میں اک پرائویٹ اسکول میں نوکری کر لی۔ یہاں بھی نہیں ٹک سکے۔ تب انھوں نے بنارس میں سرسوتی پریس لگایا جس میں گھاٹا ہوا اور بند کرنا پڑا۔ 1925ء اور 1829ء میں دو بار انھوں نے لکھنؤ کے نول کشور پریس میں ملازمت کی، درسی کتابیں لکھیں اور اک ہندی رسالہ ’’مادھوری‘‘ کی ادارت کی۔ 1929ء میں انھوں نے ہندی/اردو رسالہ ’’ہنس‘‘ نکالا۔ حکومت نے کئی بار اس کی ضمانت ضبط کی لیکن وہ اسے کسی طرح نکالتے رہے۔ 1934ء میں وہ اک فلم کمپنی کے بلاوے پر بمبئی آئے اور اک فلم ’’مزدور‘‘ کی کہانی لکھی لیکن بااثر لوگوں نے بمبئی میں اس کی نمائش پر پابندی لگوا دی۔ یہ فلم دہلی اور لاہور میں ریلیز ہوئی لیکن بعد میں وہاں بھی پابندی لگ گئی کیونکہ فلم سے صنعتوں میں بے چینی کا خدشہ تھا۔ اس فلم میں انھوں نے خود بھی مزدوروں کے لیڈر کا رول ادا کیا تھا۔ بمبئی میں انھیں فلموں میں اور بھی تحریری کام مل سکتا تھا لیکن انھیں فلمی دنیا کے طور طریقے پسند نہیں آئے اور وہ بنارس لوٹ گئے۔ 1936ء میں پریم چند کو لکھنؤ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا صدرچنا گیا۔ پریم چند کی زندگی کے آخری ایّام تنگدستی اورمسلسل علالت کے سبب بہت تکلیف سے گزرے۔ 8 اکتوبر 1936 کو ان کا انتقال ہو گیا۔
پریم چند کا اپنی پہلی بیوی سے نباہ نہیں ہوسکا تھا اور وہ الگ ہو کر اپنے میکہ چلی گئی تھیں ان کے الگ ہوجانے کے بعد پریم چند نے گھر والوں کی مرضی اور رواج کے خلاف اک نو عمر بیوہ شیو رانی دیوی سے شادی کر لی تھی۔ ان سے ان کے ایک بیٹی کملا اور دو بیٹے شری پت رائے اور امرت رائے پیدا ہوئے۔
پریم چند کی پہلی تخلیق اک مزاحیہ ڈرامہ تھا جو انھوں نے 14 سال کی عمر میں اپنے بد اطوار ماموں کا خاکہ اڑاتے ہوئے لکھا تھا۔ اگلے سال انھوں نے اک اور ڈرامہ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ لکھا۔ یہ دونوں ڈرامے طبع نہیں ہوئے۔ ان کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز پانچ چھہ برس بعد ایک مختصر ناول ’’اسرار معابد‘‘ سے ہوا جو 1903 اور 1904 کے دوران بنارس کے ہفت روزہ ’’آوازۂ حق‘‘ میں قسط وار شائع ہوا۔ لیکن پریم چند کے ایک دوست منشی بیتاب بریلوی کا دعوی ہے کہ ان کا پہلا ناول ’’پرتاپ چندر‘‘ تھا جو 1901ء میں لکھا گیا لیکن شائع نہیں ہوسکا اور بعد میں ’’جلوۂ ایثار‘‘ کی شکل میں سامنے آیا (بحوالہ زمانہ پریم چند نمبر ص 54) ان کا تیسرا ناول ’’کرشنا‘‘ 1904 کے آخر میں شائع ہوا اور اب نایاب ہے۔ چوتھا ناول ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ (ہندی میں پریما) تھا جو 1906ء میں چھپا۔ 1912ء میں ’’جلوۂ ایثار‘‘ (ہندی میں وردان) طبع ہوا۔ 1916ء میں انھوں نے اپنا ضخیم ناول ’’بازار حسن‘‘ مکمل کیا جسے کوئی ناشر نہیں مل سکا اور ہندی میں ’’سیوا سدن‘‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوا۔ اردو میں یہ ناول 1922ء میں شائع ہو سکا۔ اس کے بعد جو ناول لکھے گئے ان کے ساتھ بھی یہی صورت رہی۔
’’گوشۂ عافیت‘‘ 1922 میں مکمل ہوا اور 1928ء میں چھپ سکا۔ جبکہ اس کا ہندی ایڈیشن ’’پریم آشرم‘‘ 1922 میں ہی چھپ گیا تھا۔ ہندی میں ’’نرملا‘‘ 1923ء میں اور اردو میں 1929 میں شائع ہوا۔ ’’چوگان ہستی‘‘ 1924ء میں لکھا گیا اور ’’رنگ بھومی‘‘ کے نام سے شائع ہو کر ہندوستانی اکیڈمی کی طرف سے سال کی بہرین تصنیف قرار پا چکا تھا لیکن اردو میں یہ ناول 1927ء میں شائع ہو سکا۔ اس طرح پریم چند رفتہ رفتہ ہندی کے ہوتے گئے کیونکہ ہندی ناشرین کتب سے انھیں بہتر معاوضہ مل جاتا تھا۔ یہی حال ’’غبن‘‘ اور ’’میدان عمل‘‘ (ہندی میں کرم بھومی) کا ہوا۔ ’’گؤ دان‘‘ پریم چند کا آخری ناول ہے جو 1936ء میں شائع ہوا۔ آخری ایّام میں پریم چند نے ’’منگل سوتر‘‘ لکھنا شروع کیا تھا جو نامکمل رہا۔ اسے ہندی میں شائع کر دیا گیا ہے۔
ناول کے علاوہ پریم چند کے افسانوں کے گیارہ مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری کا آغاز 1907ء سے ہوا جب انھوں نے ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ لکھا۔ 1936 تک انھوں نے سیکڑوں کہانیاں لکھیں لیکن اردو میں ان کی تعداد تقریباً 200 ہے کیونکہ بہت سی ہندی کہانیاں اردو میں منتقل نہیں ہوسکیں۔ افسانوں کا ان کا پہلا مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ نواب رائے کے نام سے چھپا تھا۔ اس پر ان سے سرکاری باز پُرس ہوئی اور کتاب کے سبھی نسخے جلا دیئے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے دوسرے مجموعوں میں پریم پچیسی، پریم بتیسی، پریم چالیسی، فردوس خیال، خاک پروانہ، خواب وخیال، آخری تحفہ، زاد راہ، دودھ کی قیمت، اور واردات شامل ہیں۔
اردو کا افسانوی ادب جتنا پریم چند سے متاثر ہوا اتنا کسی دوسرے مصنف سے نہیں ہوا۔ ان کی متعدد تخلیقات کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پریم چند کی اک بڑی خوبی ان کی سادہ اور سلیس زبان اور شفاف و بےتکلف طرز تحریر ہے انھوں نے بول چال کی عام زبان کو تخلیقی زبان بنا دیا اور افسانوی ادب کو ایسا جاندار اور شگفتہ اسلوب دیا جو تصنع اور تکلف سے پاک ہے۔ انھوں نے ایسے وقت لکھنا شروع کیا تھا جب عشق ومحبت کی فرضی داستانوں اور طلسمی قصہ کہانیوں کا دور دورہ تھا۔ پریم چند نے آکر اس طوفانی دریا کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور کہانی کو اک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔ پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں قومی زندگی کے بنیادی حقائق کی ترجمانی کر کے اردو ادب کو نئے کردار، نئی فضا اور نئے ذائقے سے روشناس کرایا۔ وہ اپنے قارئین کو شہر کی روشن اور رنگین دنیا سے نکال کر گاؤں کی اندھیری اور بدحال دنیا میں لے گئے۔ یہ اردو کے افسانوی ادب میں اک نئی دنیا کی دریافت تھی۔ اس دنیا کی وسعت اور گہرائی کو سمجھے بغیر پریم چند کے مطالعہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا کیونکہ پریم چند کے فن کی جمالیات اوراس کی بنیادی صداقتیں اسی وسیع تناظرمیں پرورش پا کر اس قابل ہوئیں کہ ارود اور ہندی کے افسانوی ادب کی سب سے مستحکم روایت کا درجہ حاصل کر سکیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets