aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔ خیال کی سادگی ان کے کلام کی خصوصیت ہے۔ ہندی کے نرم، دھیمے اور رسیلے الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ زیر نظر شعری مجموعہ سریلی بانسری اس کا ایک نمونہ ہے۔ جسے وہ خالص اردو کہا کرتے تھے۔ اس میں عربی فارسی کا کوئی لفظ نہیں ہے مگر سنسکرت کے الفاظ ہیں۔ مجموعہ میں قومی گیت، غزلیں، قطعات اور رباعیات وغیرہ شامل ہیں۔
پچھلی دس صدیوں میں مختلف قوموں اور تہذیبوں کے تداخل اور انتشار سے دنیا میں جو نئی زبانیں عالم وجود میں آئی ہیں وہ ہیں یورپ میں انگریزی اور ہندوستان میں اردو۔ ان زبانوں کا پھیلاؤ اور ارتقا ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہے۔ ایک بڑے خطۂ ارض پر عوام الناس نے تمام انسانی اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے آپس میں خیالات کے تبادلہ کے لئے ایسی سہولت رساں زبان کی تشکیل کی ہے جو انہیں مربوط رکھے۔ اردو کی بنیاد کھڑی بولی اور برج بھاشا کی نہج پر رکھی گئی ہے جو صدیوں سے اس ملک کے حکمراں طبقہ کے خاص علاقے یعنی مغربی اترپردیش ہریانہ اور دہلی کی عام بولی تھی۔ علاؤالدین خلجی اور محمد تغلق کے زمانے میں مشترکہ بولی دکن میں آئی۔ بیجاپور اور گولکنڈے میں اس نے سرکاری سرپرستی حاصل کی۔ سولہویں صدی میں پھر اس کا فروغ دہلی میں ہوا۔ یہ زبان ہندوی، ہندی، ریختہ اور پھر اردوئے معلیٰ یا صرف اردو کے نام سے علی الترتیب، دکن دہلی، لکھنؤ، رام پور اور عظیم آباد (پٹنہ)میں ترقی پاتی رہی۔ نظم اور نثر میں تقریباً آٹھ سو برس میں عظیم ذخیرۂ ادب، حاکمانہ لب ولہجہ اور عالمانہ گفتگو کی صلاحیت پیدا کرنے کے بعد عوام و خواص کے عام استعمال کی زبان بن گئی۔ سرکاری اور علمی حیثیت اختیار کرنے کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں جب اس کا رسم الخط، قواعد اور لغت مکمل طور سے تیار ہو چکے تو لکھنؤ کے ایک جیالے شاعر اور ادیب حضرت آرزوؔ نے اردو کی لفظیات (علم صرف) میں ایک نیا تجربہ کیا۔ انہوں نے ایسے تمام الفاظ کی نشاندہی کی جو غیر ہندوستانی تھے اور بغیر اردو کے مزاج میں ڈھلے اپنی تمام ثقالت اور بوجھل پن کے ساتھ بعض حلقوں میں استعمال کئے جارہے تھے۔ حضرت آرزوؔ نے یہ تجربہ کیا کہ اردو زبان میں مزید روانی اور عوام پسندی پیدا کرنے کے لئے اس کو فارسی، عربی وغیرہ کے بھاری بھرکم الفاظ اور پیچیدہ طرز بیان سے پرہیز کرنا چاہئے اور صرف اردو کے مزاج کے مطابق رواں الفاظ کا ہی استعمال کرنا چاہئے۔ اس خیال سے دو فائدے ہوئے ایک تو تمام مشکل، بوجھل اور دقیق لفظوں کا پہچان لیا گیا دوسرے دن کی جگہ سہل الفاظ میں مطالب اور مفاہیم کی ادائیگی سے اردو کے زور بیان اور طاقت گفتار کا صحیح اندازہ ہوا۔
علم صرف کے نقطۂ نظر سے یہ عمل ضروری تھا۔ اس کام کے لیے آرزوؔ لکھنوی نے اپنی ساری ذہانت صرف کردی اور زبان کو چھان کے رکھ دیا۔ سو سے زیادہ غزلیں، مثنوی، اور رباعیاں اور کہانیاں ایسی زبان میں تصنیف کی ہیں کہ اس کو ’’خالص اردو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
آرزوؔ لکھنؤ میں آباد قدیم، پابند وضع، علم دوست اور خوش حال خاندان سادات میں1289ھ (1872ء( میں پیدا ہوئے ان کا نام سید انور حسین رکھا گیا اور عرفیت تھی منجھو صاحب۔ ان کے والد کا نام میر ذاکر حسین تھا جو شاعر تھے اور یاسؔ تخلص کرتے تھے۔ آرزو کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اس کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم مروجہ نصاب کے مطابق لکھنؤ کے مشہور علماء سے حاصل کی۔ ادبیات کے مطالعہ سے ذوق سخنوری بچپن ہی میں پیدا ہوگیا تھا۔ آگے چل کر انہوں نے جلالؔ لکھنوی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے ان کے حلقہ تلامذہ میں شرکت اختیار کی اور اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ جلالؔ لکھنوی زبان کی صحت اور صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اصلاح زبان کا یہ شوق ان کو اپنے استاد رشکؔ اور ان کے استاد حضرت ناسخؔ سے ملا تھا۔ اسی شوق کے چراغ کو انہوں نے اپنے نہایت لائق شاگرد آرزو کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اس طرح آرزوؔ کی دنیائے خیال اس کی روشنی سے منور ہوگئی۔ تذکروں میں درج ہے کہ ایک بار آرزوؔ کو کسی صاحب نے میر تقی میرؔ کا یہ شعر لکھ بھیجا:
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے
اور یہ فرمائش کی کہ اس طرح آسان زبان میں اشعار کہا کریں۔ آرزوؔ کے ذہن پر اس فرمائش نے مہمیز کا کام کیا اور یہ تجویز بہت پسند آئی اور پھر اس راہ پر انہوں نے اپنا قدم رکھا تو لکھنؤ میں دھوم مچا دی۔ یوں بھی ان کی شاعری میں جذبات، احساسات اور تغزل پہلے ہی سے موجود تھا، اب یہ نکھر کر سامنے آگیا۔ مثال کے طور پر جدائی اور محبوب سے رخصت کے مناظر یوں تو کئی شعراء کے اشعار میں موجود ہیں اور لیکن آرزوؔ نے جو منظر کشی کی ہے وہ دو چاہنے والوں کی مجبوریوں اور شدت جذبات کا بھر پور احساس دلاتی ہیں اور پورا سماں نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ شعر یہ ہے
ان کا چھٹنا روح و تن کی کشمکش ہے آرزوؔ
پھر گلے میں ڈال دیں بانہیں جدا ہونے کے بعد
آرزوؔ کی غزلوں میں درد، رنج و الم کے ساتھ ایک پرکیف اور لطیف جذبۂ محبت کا احساس موجود ہے۔
اندھیرے گھر میں کبھی چاندنی نہیں آتی
ہنسی کی بات پہ بھی اب ہنسی نہیں آتی
آرزوؔ کے کلام میں نہایت مہذب معاملہ بندی اور چھیڑ چھاڑ نے اشعار کو دلکش تو بنایا ہی ہے لیکن ان کی زبان کی شیرینی اور صفائی، محاورات اور ضرب الامثال کا باموقع استعمال شعر کے حسن کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets