aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رجب علی بیگ نام، سرورؔ تخلص، وطن لکھنؤ سال ولادت 1786ء والد کا نام مرزا اصغر علی تھا۔ تربیت اور تعلیم دہلی میں ہوئی۔ عربی فارسی زبان و ادب کے علاوہ شہ سواری، تیر اندازی، خوشنویسی اور موسیقی میں دستگاہ رکھتے تھے۔ مزاج میں شوخی و ظرافت تھی، نہایت ملنسار اور یارباش آدمی تھے۔ دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ غالبؔ سے بھی دوستانہ مراسم تھے۔
سرورؔ کے ساتھ 1824ء میں یہ حادثہ پیش آیا کہ والی اودھ غازی الدین حیدر نے کسی بات پر خفا ہو کر لکھنؤ سے جلا وطن کردیا۔ سرورؔ اور اردو نثر دونوں ہی کے حق میں یہ جلاوطنی مفید ہوئی کیوں کہ سرورؔکانپور چلے گئے اور وہاں حکیم اسد علی کی فرمائش پر فسانۂ عجائب لکھی جس کے سبب اردو ادب میں سرورؔ کو حیات جاوید حاصل ہوئی۔ نصیر الدین حیدر تخت نشیں ہوئے تو انہوں نے سرورؔ کا قصور معاف کر کے انہیں لکھنؤ آنے کی اجازت دے دی۔ واجد علی شاہ کا دور شروع ہوا تو انہوں نے پچاس روپیے ماہانہ پر درباری شعرا میں داخل کر لیا۔
1856ء میں سلطنت اودھ کا خاتمہ ہوگیا اور تنخواہ بند ہوگئی تو سرور پھر مالی دشواریوں میں مبتلا ہوگئے۔ سید امداد علی اور منشی شیوپرساد نے کچھ دنوں مدد کی لیکن 1857ء کی ناکام بغاوت نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ صاحب کمال تھے۔ اس لیے مہاراجہ بنارس، مہاراجہ الور اور مہاراجا پٹیالہ کے درباروں سے وابستہ ہو کر کچھ دن عزت کے ساتھ گزارے۔ آخیر عمر میں آنکھوں کے علاج کے لئے کلکتہ گئے۔ وہاں سے واپسی پر بنارس میں 1869ء میں انتقال ہوگیا۔
سرورؔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ فسانۂ عجائب ان میں سب سے پہلی اور سب سے اہم ہے۔ 1824ء اس کا زمانۂ تصنیف ہے۔ یہ حسن و عشق کا افسانہ ہے۔ انداز داستان کا ہے۔ اس میں غیر فطری باتیں بھی بہت سی ہیں۔ اسی لئے بعض اہل نظر نے اسے داستان اور ناول کے بیچ کی کڑی کہا ہے۔ فسانۂ عجائب کی عبارت انتہائی پرتکلف، نہایت پیچیدہ اور مقفیٰ مسجع ہے۔ رنگینی بیان سے کتاب کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو میرامن کی باغ و بہار کی ضد سمجھنا چاہئے۔ مصنف نے باغ و بہار اور اس کے مصنف کا مذاق اڑایا ہے۔ سادہ و سہل زبان ان کے نزدیک کوئی خوبی نہیں، عیب ہے۔ رنگینی، صناعی اور عبارت آرائی کو ہی وہ سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس زمانے میں اس انداز نگارش کی قدر بھی بہت تھی۔ اس لیے یہ بہت مقبول ہوئی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھی گئی۔ اب زمانے کا ورق الٹ چکا اور اسے عیب سمجھا جانے لگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مصنوعی عبارت کا دل پر اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ وزن کی فکر کرنے، قافیہ ڈھونڈنے، تشبیہ و استعارے سے عبارت کو رنگین بنانے کی کوشش میں ہی مصنف کی ساری صلاحیت صرف ہوجاتی ہے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے کہہ نہیں پاتا۔
سرورؔ کی اور بہت سی کتابیں ہیں مثلاً سرور سلطانی، شررعشق، شگوفہ، محبت، گلزار سرور، شبستان سرور اور انشائے سرور، سرور سلطانی شاہنامۂ فردوسی کے ایک فارسی خلاصے کا ترجمہ ہے اور 1847 میں واجد علی شاہ کی فرمائش پر لکھی گئی۔ شرر عشق چڑیوں کی دلچسپ داستان محبت ہے جو 1856میں لکھی گئی۔ شگوفۂ محبت بھی محبت کی کہانی ہے۔ گلزار سرور کا موضوع اخلاق و تصوف ہے۔ غالبؔ نے اس پر تقریظ لکھی ہے۔ شبستان محبت الف لیلہ کی کچھ کہانیوں کا ترجمہ ہے۔ انشاے سرور مصنف کے خطوط کا مجموعہ ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets