aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
1857ء میں غدر،اوراس کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کا انگریز حکومت کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنناایک ایسا حادثہ تھا جس سے سرسیّد بے چین ہوگئے تھے،چنانچہ سر سیدنے دقت نظری سے قوم مسلم کا جائزہ لیا اورقوم کےمسائل و مشکلات کا اصل سبب جاننے کی کوشش کی جس سے ساری مشکلات اور مسائل کا بنیادی سبب قوم کا اعلیٰ معیاری تعلیم سے عاری ہوناہے،چنانچہ اس کے لئے سرسید ؒ نےدماغ و قلم کا استعمال کیا،سوسائٹی قائم کی،اخبار جارے کئے،کتابوں کے ترجمے کرائے،لندن کا سفر کیا اور آخر کار تہذیب الاخلاق کی اشاعت کا منصوبہ بنایا،جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیمی اور تہذیبی پستی کےقعرمذلت سے نکال کر مہذب قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا اور پرانی فرسودہ مذہبی رسوم و تقالید کے طوق غلامی سے نجات دلانا تھا،جس سے اسلامی قومیت کا سبق ملا،تعلیم و تہذیب کی روشنی ملی،جس نے اُردو نثرنگاری کو نئی جہت دی زیر نظر کتاب اسی کا ایک حصہ جس کو منشی فضل الدین نے چار حصوں میں یکجا کر دیا،اس حصہ میں محسن الملک مولوی سید مہدی علی خان کے مضامین شامل ہیں۔
سید مہدی علی نام تھا، محسن الملک کا خطاب پایا تو لوگ نام بھول گئے محسن الملک ہی کہنے لگے۔ اٹاوہ میں 1817ء میں پیداہوئے۔ عربی فارسی کی تعلیم حاصل کر کے دس روپے ماہانہ پر کلکٹری میں ملازم ہوگئے۔ محنت اور دیانت سے کام کرنے کے صلے میں ترقی پاتے رہے۔ یہاں تک کہ تحصیلدار ہوگئے۔ ملازمت کے دوران قانون سے متعلق دو کتابیں لکھیں جنہیں انگریز حکام نے مفید قرار دیا اور وہ ڈپٹی کلکٹر بنا دیے گئے۔ کارکردگی کی شہرت حیدرآباد تک پہنچی اور انہیں بارہ سو روپئے ماہانہ پر مالیات کا انسپکٹر جنرل بنا کر بلا لیا گیا۔ ترقی کا سلسلہ جاری رہا اور وہ مالیات کے معتمد اعلیٰ مقرر ہوئے۔ تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی۔ حسن خدمات کے اعتراف میں ریاست کی طرف سے محسن الدولہ، محسن الملک، منیر نواز جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ حیدرآباد میں ان کی ایسی عزت تھی کہ بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ 1893ء میں پنشن لے کر علی گڑھ چلے آئے اور باقی زندگی کالج کی خدمت میں گزاری۔ سرسید کے بعد محسن الملک ہی ان کے جانشین ہوئے۔ 1907ء میں شملہ میں انتقال ہوا مگر انہیں علی گڑھ لاکر سرسید کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
محسن الملک کو سر سید کا دست راست کہا جائے تو درست ہے۔ انہوں نے ہر قدم پر سرسید کے ساتھ تعاون کیا۔ اپنی زبان اور قلم سے سرسید کے افکار و خیالات کو پھیلانے میں مدد کی۔ ان کے مضامین تہذیب الاخلاق میں اکثر شائع ہوتے تھے۔ محسن الملک کی نثر بہت دلکش ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک لفظ پر ان کی نظر رہتی ہے اور وہ بہت سوچ سمجھ کر ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس لیے وہ جو کچھ لکھتے ہیں اس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا جاتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ ان کے خطوط جو مجموعے کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ آج بھی بہت شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ علامہ شبلیؔ بھی محسن الملک کی دلکش تحریر پر فریفتہ تھے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets