aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مصنف لاہور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور اردو کے ممتاز شاعر، محقق اور نقاد بھی ۔ چھ شعری مجموعے اور تقریباً پندرہ نثری کتب کے مصنف ہیں۔ پاکستان کے "تمغہ امتیاز" جیسے ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں۔ ان کی اس کتاب میں تنقید کے نئے پس منظر پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں کل آٹھ مضامین ہیں ۔ ان آٹھ میں موضوع کو ہر پہلو سے سمیٹ لیا گیا ہے۔ اس کے پہلے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ نئی تنقید کا سلسلہ گزشتہ تیس برسوں سے جاری ہے اور ان برسوں میں ادب کی خوبیوں اور خامیوں کا خوب خوب تجزیہ ہوا ۔بسا اوقات ان تجزیوں میں تنقید کا پہلو غالب رہا اور بزرگ مصنفین پر انگلیاں بھی اٹھائی گئیں جبکہ ان بزرگوں کی کاوشوں نے ہی ماضی میں ادب کو زندہ رکھا تھا۔ کتاب کے دوسرے باب میں ادب میں اسلام کی حصہ داری پر عالمانہ گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے بعد ترجمے کی ضرورت اور اقبال کی شہرت کے عوامل پر بات کی گئی ہے ۔ مولانا حالی نے اپنی مشہور نظم کی کتاب "مسدس" تصنیف کر کے ادبی دنیا میں ایک بھونچال پیدا کیا ، اس کتاب پر کلام ہوا ہے اور ادب و تنقید میں "مذھب عشق " کا کیا رتبہ ہے،اس پر بات ہوئی ہے۔ آخر کتاب میں ہاشم علی کی بیاض اور مرثیے پر مختصر تحریر پیش کی گئی ہے۔
جیلانی کامران ٭ اردو کے ممتاز شاعر‘ ادیب‘ نقاد‘ دانشور اور انگریزی زبان و ادب کے استاد پروفیسر جیلانی کامران 24 اگست 1926ء کو پونچھ (کشمیر) میں پیدا ہوئے تھے۔ جیلانی کامران کے شعری مجموعوں میں استانزے‘ نقش کف پا‘ چھوٹی بڑی نظمیں‘ اور نظمیں‘ دستاویز اور جیلانی کامران کی نظمیں اور نثری کتب میں تنقید کا نیا پس منظر‘نئی نظم کے تقاضے‘ غالب کی تنقیدی شخصیت‘ نظریہ پاکستان کا ادبی و فکری مطالعہ‘ اقبال اور ہمارا عہد‘ لاہورکی گواہی‘ قائد اعظم اور آزادی کی تحریک‘ ہمارا ادبی و فکری سفر اور ادب کے مخفی اشارے شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیے تھے۔ ٭22 فروری 2003ء کو جیلانی کامران نے لاہور میں وفات پائی اور علامہ اقبال ٹائون لاہور کے نشتر بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free