aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پروفیسر نور الحسن نقوی کی یہ کتاب اردو ادب کی تاریخ ہے، نہ اس کتاب میں بہت زیادہ طوالت سے کام لیا گیا ہے کہ سعدان بن لندھور کی داستان بن جائے اور نہ ہی اتنی مختصر کہ افسانچہ کی صورت لے لے۔ یوں تو اردو ادب کی تاریخ کے حوالے سے بہت سی کتب دستیاب ہیں مگر ان میں یا تو طوالت ہے یا اتنا اختصار کہ سمجھ میں ہی نہ آئے اور بعضوں کی ترتیب اتنی خراب ہے کہ پڑھ کر اندازہ لگانا ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا شاعر کس دور کا ہے اور اس میں کس دور کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس لئے نور الحسن نقوی نے یہ کتاب مرتب کی تاکہ پڑھنے والا اردو ادب کی تاریخ کو موٹے طور پر اپنے ذہن میں بٹھا سکے۔ اس کتاب کی ترتیب اتنی خوبصورت ہے کہ قاری کو خود بخود ذہن نشین ہو جاتی ہے اور یا درکھنے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہوتی۔ اس کتاب میں سب سے پہلے تمام اصناف شاعری کے بارے میں بات کی گئی ہے کہ مثلا غزل کیا ہے مرثیہ کیا ہے وغیرہ اور جب قاری یہ ذہن نشین کر لے کہ کس طرح کی شاعری کے کیا خصائص ہیں تو شاعر کی شاعری دیکھ کر ہی سمجھ لیگا کہ یہ کس صنف سخن کا شاعر ہے ۔اس کے بعد اردو شاعری کے دبستان پر بات کی گئی ہے جن میں دہلی ، لکھنو، عظیم آباد، رامپور اور جدید اسکول کے دبساتوں پر بات کی گئی ہے۔ پھر دکن کی اردو شاعری اس کے بعد شمال ہند کی پھر بہار اور ان سب کے ضمن میں ان کے نمایندہ شعرا کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اردو شاعری کے عہد زرین پر گفتگو کی گئی ہے پھر لکھنو میں اصلاح زبان کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ پھر مرثیہ گوئی کے نمائندہ شعرا کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اردو شاعری میں نئے رجحانات کے بارے میں اور جدید غزل پر بات کی گئی ہے۔ اس کے بعد شعرائے عہد جدید کے بارے میں لکھا ہے اور ترقی پسند تحریک پر بات کی گئی ہے۔اس کے بعد نثر پر بات شروع ہوتی ہے اور اس کی ترویج و ترقی کے مراحل طے کرائے گئے ہیں۔ پھر نثر کی تمام اصناف سخن پر الگ الگ بات کی گئی ہے۔ پھر نقد و تحقیق پر بات ختم کر دی گئی ہے۔ کتاب کی حسن ترتیب نہایت ہی خوبصورت ہے اور قاری کے لئے آسانی کے در وا ہیں۔ اس لئے اردو ادب کی تاریخ کو جاننے کے لئے اس سے بہتر کتاب نظر نہیں آتی۔