aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بر صغیر میں امروہہ وہاں کے خانوادوں اور علمی ماحول کی وجہ سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ زیر نظر کتاب "تاریخ امروہہ" پہلی مرتبہ ۱۹۳۰ میں شائع ہوئی تھی۔ جس میں قدیم بستی اور یہاں کے قدیم خاندانوں اور عام باشندگان شہر کے حالات مرتب کیے گئے ہیں۔ کتاب کا ٹائیٹل امروہا کی تاریخی عمارتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ کتاب میں ہندو اور مسلمانوں کی بعض قوموں کے نسب پر تاریخ اور علم انساب کی روشنی میں اجمالی بحث کی گئی ہے۔ وہاں کی خاص خاص عمارتوں کا ذکر اور ان کے فوٹو اور کیپشن دیئے گئے ہیں ۔ کئی ایسی جگہیں ہیں جن کے نام اب بدل چکے ہیں ، اس قدیم نام کے ساتھ اصل محلہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے پیشے اور ان کی اقتصادی حالت کے بارے میں تاریخی بحث کی گئی ہے اور دیگر اقوام کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ فٹ نوٹ تقریباً ہر صفحے پر ہے جس سے قاری کے لئے مزید آسانی ہوگئی ہے۔ اس سلسے کی دوسری جلد "تذکرۃ الکرام" ہے۔ جس میں امروہہ کے مشاہیر اولیا، حکما، علما، امرا اور شعرا کے تفصیلی کوائف کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں ان اہل کمالات کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ امروہہ صدیوں سے اہل کمالات کی سرزمین رہا ہے اور یہاں پر ہزاروں باکمال حضرات نے اپنی خدمات کو انجام دیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک اور جلد "تحقیق الانساب" ہے۔ جس میں امروہہ کے سادات و شرفا کے نسبی حالات تاریخی لحاظ سے ترتیب دئے گئے ہیں۔ کتاب کے مصنف محمود عباسی نے امروہہ میں آباد خاندانوں کے شجرات پر تحقیقی تصنیف کو منظر عام پر لانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ ویسے یہ تاریخ امروہہ کی تمام جلدیں اپنے آپ میں مستقل تصانیف ہیں جن سے علاحدہ علاحدہ بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔