aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
چترال خیبر پختونخوا پاکستان کا ایک ضلع ہے۔ جو ہندوکش کے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، ضلع چترال کی ایک تحصیل کا نام بھی چترال ہے، چترال کی مناسبت سے یہاں کی زبان کھوار کو چترالی بھی کہا جاتا ہے اور چترال کے لوگوں کو بھی چترالی کہا جاتا ہے، یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کی سرحد افغانستان کی واخان کی پٹی سے ملتی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ رياست کے اس حصے کو بعد ميں ضلع کا درجہ ديا گيا۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈويژن سے منسلک کيا گيا۔ اپنے منفرد جغرافيائی محلِ وقوع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے ديگر علاقوں سے تقريبا پانچ مہينے تک منقطع رہتا ہے۔ اپنی مخصوص پُر کشش ثقافت اور پُر اسرار ماضی کے حوالے سے ملفوف چترال کي جُداگانہ حيثّيت، سياحت کے نقطہءنظر سے بھی کافی اہميت کی حامل ہے۔ جنگ افغانستان کے دوران اپنی مخصوص جغرافيائی حيثيت کی وجہ سے چترال کی اہميّت ميں مزيد اضافہ ہوا۔ موجودہ دور ميں وسطی ايشيائی مسلم ممالک کی آزادی نے اس کی اہميت کو کافی اُجاگر کيا۔ رقبے کے لحاظ سے يہ صوبہ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔"تاریخِ چترال"میں مصنف نے بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں چترال کا جغرافیہ اور تاریخ بیان کی ہے۔ مصنف انگریزی ملازمت کے سلسلے میں کئی سال چترال میں رہے۔ انہوں نے کتاب کے لیے بنیادی مواد ایک مقامی مورخ مرزا محمد غفران سے حاصل کیا۔ مرزا غفران نے 1893ء میں چترال کی تاریخ پر ایک مختصر کتاب فارسی میں لکھی تھی۔ یہ کتاب انگریزوں کے ہاتھ لگی تو انہوں نے منشی عزیز الدین سے اِس کا اُردو ترجمہ کرایا۔ تاہم مترجم نے نہ صرف بعد کے حالات کا تذکرہ خود لکھا بلکہ اپنے مشاہدات اور تأثرات بھی اس میں شامل کیے۔ اضلاع اور مشہور مقامات کے علاوہ چترال کی زبانیں، لوگوں کے رسوم و عادات، طرزِ حکومت، شاہان چترال اورچترال کے مہتر و دیگر معلومات سے لبریز ایک عمدہ اور ریاست چترال کی تاریخ پر یہ پہلی مطبوعہ کتاب ہے ۔