aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تزک بابری یا بابر نامہ ، بابر کی خود نوشت اور شاہکار تصنیف ہے ۔ بابر جس قدر جری اور عزم و استقلال کا پکا تھا اتنا ہی زیادہ اس کو علم و ادب سے شغف تھا ۔ اس نے فقہ حنفی اور عروض پر کتاب بھی لکھی ہے ۔ بابر ہمیشہ علمی مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ۔ اس کے ہمنوا ؤں اور دوستوں میں علی شیر نوائی ازبیکی ترکی زبان اور فارسی کا معروف شاعر تھا۔. بابر نے اپنی سرگزشت ترکی زبان میں لکھی ہے ۔ اس کی سرگزشت میں اس نے اپنی غلطیوں اور شکستوں کو بغیر کم و کاست تحریر کر دیا ہے ۔ اس نے اپنی سرگزشت جوانی میں لکھنا شروع کی اور اپنے آخری سال تک اس کام کو جاری رکھا ۔ یہ کتاب اس نے اپنی تعریف کرنے کے لئے نہیں لکھی تھی جیسا کہ بعض سرگزشتوں کو دیکھنے سے لگتا ہے بلکہ اس کی سرگزشت بعض مقامات پر تو اتنی صاف اور بے نیام ہو جاتی ہے کہ تعفن زدہ معلوم پڑنے لگتی ۔ اس نے اپنی اس کتاب میں حقیقت نگاری سے کام لیا ہے اور کہیں بھی اپنے یا پرائے چہرے کو خود سے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کتاب سے بابر کی استعداد کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس عالی ذوق کا مالک تھا ۔ اس نے اس کتاب میں خاص طور پر ہندوستان کے احوال کو بہت ہی دلچسپی سے لکھا ہے اس نے یہاں کی کھاس سے لیکر عورتوں تک کی تعریف کی ہے اور کہتا ہے کہ یہاں بہار کا موسم شاید بارش کے موسم میں آتا ہے ۔ اس ترکی تصنیف کو سب سے پہلے عبد الرحیم خان خاناں نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ زیر نظر ترجمہ اردو زبان میں ہے جسے نصیر الدین حیدر نے بہت ہی زیادہ محنت کرکے ترجمہ کیا ہے ۔ اس کتاب کے تراجم دنیا کی کئی بڑی بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔