aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غلام محمد قاصر کا شمار اردو کے جدید شعراء میں کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں روایت کا اثر نظر تو آتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسی فضا بھی نظر آتی ہے جس میں ان کے حالات زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ مذکورہ کتاب غلام محمد قاصر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں کل ۵۵ غزلیں اور ۲۱ نظمیں شامل ہیں۔ ساتھ ہی کتاب کی شروعات میں ڈاکٹر سید عبداللہ، صوفی تبسم، احسان دانش، ظہیر کاشمیری، عارف عبدالمتین جیسے نامور ناقدین کے تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی "تسلسل کا شاعر" کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی کا مضمون بھی شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں، "قاصر غزل کی سی قدیم صنف میں اظہار کرتا ہے مگر اس کے موضوعات، بات کہنے کے انداز، بیسویں صدی کو اپنے جلووں میں لے کر چلنے کے تیور ، تشکیک و تذبذب میں معلق عصر کی آنکھوں میں ڈال کر یقین و اعتماد کے ساتھ نغمہ گری، اپنی علاقائی اور پھر وطنی خصوصیات کو پورے کرّہ ارص سے مربوط کردینے کے حوصلے۔یہ سب قاصر کی منفرد پہچانیں ہیں۔"
نام غلام محمد قاصر اور قاصر تخلص ہے۔۴؍ستمبر ۱۹۴۱ء کو پہاڑپور(ڈیرہ اسماعیل خاں) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پہلے اپنے طور پر فاضل اردو اور پھر ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ میٹرک کے بعد ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۵ء سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان میں شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔۲۰؍فروری۱۹۹۹ء کو پشاور میں انتقال کرگئے۔ان کا مجموعۂ کلام ’’تسلسل‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’دریائے گمان‘‘، ’’آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘۔ انھیں صدارتی ایوراڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:353
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets