aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر تبصرہ کتاب "تثلیث حیات" پرویز شاہدی کا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں غزلیں، نظمیں اور رباعیات شامل ہیں۔ ابتدا میں 'متاع فقیر' کے عنوان خود نوشت تعارفی دیباچہ ہے۔ یہ پرویز شاہدی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، جس کی نظموں، غزلوں اور رباعیوں میں فکری رومانیت کے ساتھ گہری اشتراکیت پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں بعض ایسے انقلابی نمونے ہیں جنہیں قابل لحاظ کہا جاسکتا ہے۔ مظہر امام کے خیال میں پرویز شاہدی ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے ترقی پسندی اور اشتراکیت کو ایک ہی چیز سمجھا اور اس باب میں ان کے یہاں خاصی شدت ملتی ہے۔
پرویز شاہدی کا اصلی نام سید اکرام حسین ہے۔ ان کے والد کا نام سید احمد حسین تھا۔ اکرام حسین پرویز شاہدی میں مبدل ہوگئے اور یہی نام مشہور ہوگیا۔ پرویز 1910ء میں پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ خاندانی اعتبار سے ان کے اسلاف مسند ارشاد پر متمکن تھے۔ لیکن پرویز شاہدی نے اس سلسلے سے کوئی تعلق نہیں رکھا۔
ان کی ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق گھر ہی پر ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے درس نظامیہ مکمل کیا۔ لیکن پرویز شاہدی انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے وہ کلکتہ چلے گئے اور جبلی انسٹی ٹیوٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد پٹنہ واپس آگئے۔ یہاں گریجویٹ ہوئے، قانون کی بھی ڈگری لی اور اردو اور فارسی میں ایم اے ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد پھر کلکتہ آگئے تب ان کی ملاقات مظفر احمد، اجیت رائے، سبھاش مکھرجی، گوپال ہلدیال، جیسے اشتراکیوں سے ہوگئی اور گویا یہ سب ان کے دوست بن گئے۔ اس طرح پرویز شاہدی باضابطہ طور پر مارکسی ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی سے ان کا تعلق اٹوٹ سا رہا۔ پھر انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ بنگالی زبان سیکھیں چنانچہ اس میں بھی مہارت حاصل کی اور بنگالی زبان کے کئی شاہکاروں کو اردو جامہ پہنایا۔
پرویز شاہدی مالی مشکلات کا مسلسل شکار رہے۔ لیکن انہوں نے 1941ء سے 1946ء تک مدناپورکالج میں اردو کی لکچرری کی۔ پھر سریندرناتھ کالج میں 1947ء میں اس عہدے پر فائز ہوئے۔ لیکن استادی کا یہ پیشہ پابند نہ کرسکا اور وہ کمیونسٹ پارٹی کی تحریک کے ایک ستون کی حیثیت سے وابستہ رہے اور اس کی سرگرمیوں میں عملی حصہ لیتے رہے۔ نتیجے میں انہیں نظر بند ہونا پڑا اور تقریباً ڈیڑھ سال تک قیدوبند کی زندگی گزاری۔ ملازمت بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ گویا یہ دوران کی پریشانیوں کا بیحد خوفناک دور تھا۔ اسی دوران جب ان کی شادی ہوگئی تو ان کی زندگی قدرے بدلی۔ ان کی پہلی بیٹی ثمینہ جب پیدا ہوئی تو انہوں نے ایک معرکۃ الآرا نظم ’’تثلیث حیات‘‘ نظم کی جو ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ویسے ان کا ایک مجموعہ کلام ’’رقص حیات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’تثلیث حیات‘‘ کے نام سے 1968ء میں شائع ہوا۔ اسی سال ان کا انتقال بھی ہوا، تب وہ کلکتہ کے شعبہ اردو سے وابستہ تھے اور صدرشعبہ بھی تھے۔
پرویز شاہدی کی ابتدائی نظمیں اپنے تیور کے اعتبار سے رومانی ہیں لیکن ان میں انقلابی شاعری کے ایسے نمونے ہیں جنہیں قابل لحاظ کہا جاسکتا ہے۔ ویسے ایسی ابتدائی نظموں میں بھی جوش ملیح آبادی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اس کا احساس دلایا ہے کہ پرویز شاہدی ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے ترقی پسندی اور اشتراکیت کو ایک ہی چیز سمجھا اور اس باب میں ان کے یہاں خاصی شدت ملتی ہے۔ اشتراکیت روس یا چین سے متعلق ہر چیز انہیں عزیز ہے اور ان سے متعلق ان کی نظموں میں وہ عقیدت مندی پائی جاتی ہے جو مذہبی لوگوں میں ہوتی ہے ’’یانگ سی کو سلام‘‘، ’’خوش آمدید‘‘ ، ’’پاؤوابسن کے نام‘‘، ’’اسٹالن‘‘، ’’اسٹالن‘‘، ’’الکچی کو بویمما کی بیوہ کے نام‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں بعض بند بہت اچھے ہیں۔ ’’اجالا‘‘ ، ’’رقص حیات‘‘ اور ’’سازمستقبل‘‘ وغیرہ میں کچھ رمزیت بھی پائی جاتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پرویز شاہدی کی شاعری باضابطہ دوحصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے ایک حصہ وہ ہے جس میں گہری اشتراکیت پائی جاتی ہے اور دوسرا حصہ وہ جس میں گہری فکری رومانیت ہے۔ ’’تثلیث حیات‘‘ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک ارتقا پزیر ذہن کا ثبوت ملتا ہے۔ اس عنوان کی جو نظم ہے اس میں تفکر کی ایک گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح سردار جعفری کی شاعری دوحصوں میں منقسم ہے یعنی ایک کا تعلق غایت خارجی احساسات سے ہے اور دوسرے کا تفکر اور گہرائی اور گیرائی سے۔ یہ صورت پرویز شاہدی کے یہاں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ترقی پسند شاعری کی تنقید اب تک صحیح راستے پر نہیں لگ سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ پرویز شاہدی کو جو مقام ملنا چاہئے تھا وہ انہیں نہیں مل سکا ہے۔ اس کی ایک وجہ اور ہے، وہ ان کا اپنا مزاج ہے جو انہیں اپنی شاعری کے سلسلے میں ہمیشہ لاتعلق رکھتا ہے۔ مرتے دم تک وہ اپنے کلام کے بارے میں لوگوں سے رابطہ نہ رکھ سکے جو ترقی پسند شاعری کے ائمہ میں شمار ہوتے تھے۔ بہرحال جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے پرویز شاہدی کی شاعری کی اہمیت نمایاں ہوتی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں سیدہ جعفر کی ایک غفلت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ان کی کتاب ’’تاریخ ادب اردو: عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک‘‘ ہے۔ اس میں پرویز شاہدی پر چند سطور بھی نہیں ہیں، یہ حیرت کی بات ہے۔ محترمہ کے سامنے کم ازکم خلیل الرحمٰن اعظمی کی ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ جیسی کتاب ہوگی ہی۔ خلیل الرحمٰن اعظمی نے پرویز شاہدی کے بعض امتیازات کی طرف نشاندہی کی ہے۔ بہرطور، یہ تو سخن گسترانہ ہے، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پرویز شاہدی ترقی پسند تحریک کی شاعری کی تاریخ میں ایک انفرادی جگہ رکھتے ہیں جس کا احساس ہونا چاہئے۔ ذیل میں میں پرویز شاہدی کی غزلوں سے چند اشعار پیش کر رہا ہوں جس میں انفرادیت کی لہریں موجود ہیں:۔
موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگادی مجھے مرنے نہ دیا
اس رفاقت پہ فدا میری پریشاں حالی
اپنی زلفوں کو کبھی تو نے سنورنے نہ دیا
تیری غمخوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے
غم ہستی کی بلندی سے اترنے نہ دیا
پرویز شاہدی کی نظم ’’تثلیث حیات‘‘ بہت مشہور ہے۔ ابتدائی چند بند ملاحظہ ہوں:۔
انگلیاں میری ہیں لب میرے ہیں آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنوئیں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی نکھری ہوئی بیتابی ہے
اپنے شعروں میں جڑے روح کے ٹکڑے کتنے
اپنے افکار کو خوں دل کا پلا کر پالا
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets