aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آٹھویں صدی عیسوی میں عرب قصہ گوؤں کے ذریعہ تخلیق کی گئی "الف لیلیٰ" کہانیوں کی ایک مشہور کتاب ہے... یہ پوری داستان ایک ہزار ایک راتوں کے قصوں پر محیط ہے، جس کے کچھ مشہور قصے، الہ دین، علی بابا، مچھیرا اور جن، سندباد جہازی، تین سیب، سمندری بوڑھا، شہر زاد اور حاتم طائی... وغیرہ ہیں... اس داستان کو دنیا کی لگ بھگ تمام زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ زیر نظر اردو ترجمہ ہے جس کو پنڈت رتن ناتھ سرشار نے ناول کی طرز پر انجام دیا۔ یہ کتاب 1901 میں نول کشور لکھنو سے شائع ہوئی۔ کہتے ہیں کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہو گیا۔ وہ ہر روز ایک شادی کرتا اور صبح عورت کو قتل کر دیتا۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ ریاست میں عورتوں کی کمی ہونے لگی... تب وزیر زادی شہر زاد نے عورتوں کو محفوظ کرنے کا منصوبہ بنایا اور بادشاہ سے شادی کرلی۔ وہ ہر رات بادشاہ کو ایک کہانی سناتی، جب کہانی کلائمیکس پر پہنچتی تو وہ اسے کل کے لئے ملتوی کردیتی، اور کل وہ کہانی مکمل کرکے دوسری کہانی شروع کردیتی، چونکہ بادشاہ کہانیاں سننے کا بہت شوقین تھا، اس لئے ہر روز اس کا قتل ملتوی کردیتا... اس طرح کہانیوں کا سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں تک پہنچ جاتا ہے... اس طویل مدت میں اس کے دو بچے ہوجاتے ہیں اور عورت ذات سے بادشاہ کی بدظنی دور ہو جاتی ہے۔