aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
توبۃ النصوح ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے، جس کو ان کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ یہ ناول 1877ء میں شائع ہوا۔ یہ اولاد کی تربیت کے بارے میں ہے۔ اس ناول کے ذریعے یہ حقیقت روشن کی گئی ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے۔ اس کی پرورش اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں نیکی اور دین داری کے جذبات پیدا ہوں۔ یہ ناول ایک مکالمے کی شکل میں ہے ۔ اس میں انہوں نے ایک خاندان کے سربراہ نصوح کی توبہ کے بارے میں لکھا ہے جسے ہیضہ ہو جاتا ہے اور بستر مرگ پر غش کی حالت میں اپنی عاقبت کے حالات دیکھتا ہے اور گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کو راہ راست پر آنے کی تلقین کرتا ہے ۔ چھوٹے بچے اس کی بات مان جاتے ہیں مگر بڑے ضد پر قائم ہیں۔ بڑا بیٹا ایک مرتبہ زخمی ہوکر گھر لوٹتا ہےاور زخم کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتا ہے۔ اس پوری کتاب میں گھریلو ناچاقیوں کو ختم کرنے کی کوشش اور اپنے بچوں کو کیسے راہ راست پر لائیں، بتایا گیا ہے۔ مکمل کتاب بارہ فصلوں میں ہے اور ہر فصل الگ الگ عنوان سے قائم ہے۔
اردو میں وہ شخصیت جسے پہلا ناول نگار ہونے کا شرف حاصل ہے، جس نے سب سے پہلے خواتین کے لیے ادب کی تشکیل کی، جس نے تانیثیت کا منشور مرتب کیا اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ ’تعزیرات ہند‘کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس شخصیت کا نام ڈپٹی نذیر احمد ہے۔
نذیر احمد کی پیدائش 6 دسمبر1836 کوضلع بجنور میں ہوئی۔ ان کے والد مولوی سعادت علی معلم تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ دلی کے اورنگ آبادی مدرسےمیں مولوی عبد الخالق سے درس لیا۔ دہلی کے زمانۂ طالب علمی میں پنجابی کٹرے کی مسجد میں رہتے تھے۔ اس زمانے میں دینی مدرسے کے زیادہ تر طالب علموں کو بستی کےگھروں سے روٹیاں لانی پڑتی تھی۔ نذیر احمد کو بھی اپنے کھانے کا انتظام اسی طرح کرنا پڑا۔ کہیں سے رات کی بچی ہوئی دال توکہیں سے دو تین سوکھی روٹیاں مل جاتی تھیں۔ نذیر احمد مولوی عبد الخالق کے گھر سے بھی روٹیاں لاتے تھے۔ جہاں ایک لڑکی ان سے روٹی کے بدلے مصالحے پسواتی تھی ۔اور کبھی کبھی مصالحہ پیسنے میں سستی کی وجہ سے انگلی پر سل کا بٹہ بھی مار دیتی تھی۔ خود نذیر احمدنے لکھا ہے کہ؛ ’’ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا، ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی۔ جب تک سیر دو سیر مصالحہ مجھ سے نہ پسوا لیتی نہ گھر سے نکلنے دیتی نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی... خدا جانے کہاں سے محلہ بھر کا مصالحہ اٹھا لاتی تھی۔ پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے تھے جہاں میں نے ہاتھ روکا اور اس نے بٹہ انگلیوں پر مارا، بخدا جان سی نکل جاتی تھی۔‘‘ یہی لڑکی بعد میں نذیر احمد کی شریک حیات بنی۔
مدرسہ کی تعلیم کےبعد نذیر احمد نے دلی کالج میں داخلہ لیا، یہاں انہیں وظیفہ بھی مل گیا۔ دلی میں 8 سال گزارنے کے بعد بسلسلہ ملازمت گجرات پہنچے۔ جہاں80 روپئے ماہوار پر انہیں نوکری مل گئی۔ اس کے بعد ترقی کرتے ہوئے وہ کانپور میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہو گئے۔ 1857 کے انقلاب میں دلی واپس آئے۔ یہاں سے نظام دکن نے انہیں حیدر آباد بلا لیا۔ جہاں ان کی تنخواہ1240 روپئے مقرر ہوئی۔ انہیں دفاتر کا معائنہ اور کار کردگی کی مفصل روداد پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ نذیر احمد نے بہت محنت اور لگن سے کام کیا اس لیے انہیں ترقی ملتی گئی۔ وہ صدر تعلقہ دار بن گئے۔ اس دوران انہوں نے نظام دکن کے بچوں کو پڑھانے کا بھی کام کیا۔
ڈپٹی نذیر احمد جب جالون میں تھے تو انہیں بچوں کے لیے کچھ کتابوں کی ضرورت محسوس ہوئی مگر وہ دستیاب نہ ہو سکیں تو انہوں نے خود بچوں کے لیے کتابیں لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ ’مراۃ العروس‘ ’منتخب الحکایات‘ وغیرہ ان کی اپنے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد نے بہت سے ناول تحریر کئے جن کا مقصد اصلاحی تھا اور ان ناولوں میں زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور امورخانہ داری پر تھا۔ ان کے مشہور ناولوں میں ’مراۃ العروس‘ ’بنات النعش‘’ توبۃ النصوح‘ ’فسانہ مبتلا‘ ’ابن الوقت‘’ ایامی ‘اور ’رویائے صادقہ‘ ہیں۔
’مراۃ العروس ‘ان کا سب سے مشہور ناول ہے۔ جس کے کردار اکبری اور اصغری آج بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔یہ ناول جب شائع ہوا تھا تو حکومت نے ایک ہزار روپے انعام سے نوازا تھا۔1869 میں شائع ہوئے والے اس ناول کو زیادہ تر لوگ اردو کا پہلا ناول مانتے ہیں۔
’ابن الوقت ‘ بھی نذیر احمد کا بہت مشہور ناول ہے ،جس میں مغربی تہذیب و تمدن کی نقالی پر طنز کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس میں سر سید احمد خان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔مگر ڈپٹی نذیر احمد نے اس کی تردید کی ہے کیوں کہ وہ خود سر سید کی تحریک سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ سر سید کے مشن کی تبلیغ اور ترویج کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے تھے۔ وہ سر سید کے تمام نظریات اور تصورات کے قدرداں تھے اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اہم قومی خدمات بھی انجام دی ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد نے ناولوں کے علاوہ جو اہم علمی کام کئے ہیں ان میں قرآن کا ترجمہ، قانون انکم ٹیکس، قانون شہادت بہت اہم ہیں ۔
ڈپٹی نذیر احمد کی بیشتر کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کی کتابوں کا انگریزی کے علاوہ پنچابی، کشمیری، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ، بھاکا وغیرہ میں ترجمے ہوئے۔ ’مراۃ العروس ‘ کا ترجمہ انگریزی میں 1903 میں لندن سے شائع ہوا۔ 1884 میں ’توبۃ انصوح‘ کا ترجمہ سر ولیم میور کے دیباچہ کے ساتھ شائع ہوا۔
ڈپٹی نذیر احمد کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی ادبی اور مغربی خدمات کے صلےمیں برطانوی حکومت نے شمس العلما کا خطاب دیا تھا ۔
آخری عمر میں ڈپٹی نذیر احمد پر فالج کا حملہ ہوا اور 3 مئی 1912ء میں دلی میں وفات پا گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets