aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شاہ طیب بنارسی ایک صاحب علم صوفی اور عالم باعمل تھے ۔ بنارس ہندوستان کے ان شہروں میں سے ایک ہے جو زمانہ قدیم سے ہی علم و تصوف کا گہوارہ رہا ہے جہاں پر تصوف و بھکتی کا ایک شاندار ماضی رہا ہے اور جس سرزمین سے داراشکوہ کو بیحد محبت تھی اس نے یہیں پر رہ کر اپنیشد کا ترجمہ چندربھان برہمن کی معیت میں رہ کر کیا تھا جس نے مسلمانوں کو ہندو فلسفہ سمجھنے میں اول اول مدد کی ۔ غالب کو جب مسائل تصوف کا ایک انوکھا باب کھولنے کا من کیا تو وہ اسی شہر کی شان میں ایک خوبصورت مثنوی کہہ گئے جسے "چراغ دیر" کے نام سے جانا جاتا ہے اور انہوں نے اس شہر کے احترام اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے رودراکش کی 108 مالا کے دانوں کی عدد کی وجہ سے اپنی مثنوی کے اشعار بھی ایک سو آٹھ اشعار سے زیادہ نہ ہونے دئے۔ اس شہر کی صبح کا منظر ہمیشہ سے لبھاونا رہا ہے اور لوگ یہاں کی صبح کا نظارہ دیکھنے واسطے دور دراز سے سفر کر آتے ہیں ار یہاں کے مندروں کی گھنٹی اور بنارس کے گھاٹ کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس شہر کو علم و فضل سے بہت شغف رہا ہے کبیر داس بھی اسی زمین پر رہ کر اپنی وانی لوگوں کو سناتے رہے اور انتقال سے پہلے انہوں نے ایک عقیدہ کی وجہ سے ترک کر دیا اور مگہر چلے گئے اسی طرح سے استاد بسم اللہ خاں بھی اسی سرزمین میں رہ کر اپنی شہنائی نوازی سے لوگوں کو مسحور کرتے رہے ۔ یہ تذکرہ شاہ طیب بنارسی پر لکھا گیا ہے جو اسی سرزمین سےتھے اور ان پر بھی یہاں کی مٹی اثر انداز ہوئی اور وہ بھی تصوف کی راہ پر گامزن ہوکر لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free